نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور عورت کی عزت کا بحال ہونا
مقدمہ
تاریخ انسانیت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر دور میں عورت کا مقام اور حیثیت مختلف رہی ہے۔ کہیں اسے دیوی کا درجہ دیا گیا تو کہیں اسے محض ایک شے سمجھا گیا۔ اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرہ بھی ان تاریکیوں میں گھرا ہوا تھا جہاں عورت کا کوئی خاص مقام نہیں تھا۔ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور اسے زندہ درگور کر دینا عام تھا۔ اسی تاریک دور میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی۔
![]() |
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور عورت کی عزت کا بحال ہونا |
آپ کی آمد ایک عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، جس نے نہ صرف انسانیت کو گمراہی سے نکالا بلکہ عورت کو اس کا کھویا ہوا وقار اور عزت بھی واپس دلائی۔
عرب میں اسلام سے قبل عورت کی حالت
اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرہ جہالت اور تعصبات کا شکار تھا۔ عورت کی حالت اس معاشرے میں انتہائی ابتر تھی۔ اسے وراثت سے محروم رکھا جاتا، اس کا کوئی اپنا اختیار نہ تھا اور وہ مرد کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش پر غم و غصے کا اظہار کیا جاتا اور اکثر اوقات اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اس صورتحال کو یوں بیان کیا: "اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔" یہ آیت اس دور کی عورت کی بے بسی اور ذلت کو واضح طور پر بیان کرتی ہے۔
اسلام کی آمد: ایک نئی صبح کا آغاز
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی عورت کے لیے ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔ آپ نے عورت کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور اسے وہ مقام عطا کیا جس کی وہ حقیقتاً حقدار تھی۔ آپ نے سب سے پہلے بیٹی کو رحمت قرار دیا۔ آپ کا ارشاد ہے کہ "جس کسی کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے، تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا، جیسے یہ دو انگلیاں ہیں۔" اس فرمان نے بیٹی کی پیدائش کو رحمت اور سعادت کا باعث بنا دیا۔
عورت کی بحیثیت ماں حیثیت
اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے بلند مقام عطا کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور قول ہے کہ "جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔" اس ایک جملے نے عورت کو وہ عزت بخشی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ اس فرمان کے بعد ماں کی خدمت اور اس کی رضا کو خدا کی رضا قرار دیا گیا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے اولاد پر ماں کی خدمت اور اس کا احترام فرض قرار دیا۔
عورت کی بحیثیت بیوی حیثیت
اسلام سے قبل بیوی کا کوئی مقام نہیں تھا۔ اسے صرف مرد کی خدمت اور اس کی جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیوی کو ایک اہم اور قابل احترام حیثیت دی۔ آپ نے فرمایا: "تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے۔" آپ نے خود بھی اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور محبت، احترام اور مشاورت کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔ آپ نے بیٹیوں کو بھی سمجھایا کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کا خیال رکھیں۔
عورت کی بحیثیت بیٹی اور بہن حیثیت
اسلام نے بیٹی کو بھی عزت بخشی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کی پرورش اور اس کی تعلیم و تربیت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا: "جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی اور انہیں اچھے طریقے سے بڑا کیا، تو وہ اور میں قیامت کے دن اکٹھے ہوں گے۔" اسی طرح اسلام نے بہن کو بھی ایک خاص مقام دیا۔
وراثت میں عورت کا حق
اسلام سے قبل عورت کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے واضح طور پر عورت کا وراثت میں حق مقرر کیا ہے۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا جس نے عورت کو مالی طور پر خود مختار کیا۔
تعلیم کا حق
اسلام نے مرد اور عورت دونوں پر حصول علم فرض قرار دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت) پر فرض ہے۔" اس فرمان نے عورت کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔
مساجد میں عورت کا مقام
عورت کو مساجد میں جانے کا حق دیا گیا تاکہ وہ نماز اور دیگر عبادات میں شریک ہو سکیں۔ یہ اس کی اہمیت اور اس کی عبادت کی آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔
خلاصہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد نے عورت کی زندگی میں ایک نئی روشنی پیدا کی۔ اس نے عورت کو جو مقام، عزت اور وقار عطا کیا، اس کی مثال کسی دوسرے مذہب یا معاشرے میں نہیں ملتی۔ اسلام نے بیٹی کو رحمت، ماں کو جنت کا دروازہ، بہن کو عزت اور بیوی کو رفیقہ حیات کا درجہ دیا۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات نے عورت کو اس کی حقیقی حیثیت واپس دلائی۔
خاتمہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور ان کی تعلیمات کے بغیر عورت کا مقام وہی رہتا جو اسلام سے قبل تھا، یعنی بے بسی اور محرومی۔ آج بھی وہ معاشرے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے دور ہیں، وہاں عورت کو وہی مسائل درپیش ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے عرب میں تھے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں تاکہ ہماری عورتیں بھی عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم نبی کی دی ہوئی عزت اور حقوق کا تحفظ کریں تاکہ ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پا سکے۔