عقیدہ توحید (اللہ کی حقیقت)

Dabistan_e_Islam
0

 عقیدہ توحید (اللہ کی حقیقت)

اللہ، خالق کائنات، واحد اور بے مثال ہستی جو تمام موجودات کا منبع ہے۔ وہ ایسی حقیقت ہے جو عقل انسانی کی تمام حدود سے ماورا ہے، پھر بھی اس کی نشانیاں کائنات کے ہر ذرے میں عیاں ہیں۔ اس کی ذات، صفات اور افعال پر غور و فکر کرنا ہی انسان کے لیے معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
عقیدہ توحید (اللہ کی حقیقت)
عقیدہ توحید (اللہ کی حقیقت)

وحدانیت اور توحید

اللہ کی حقیقت کا سب سے بنیادی پہلو اس کی وحدانیت ہے۔ یہ عقیدہ کہ اللہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ کوئی اس کا ثانی، نہ کوئی اس کی مانند، توحید کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ اخلاص اس حقیقت کو نہایت جامع انداز میں بیان کرتی ہے: "قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ" (کہہ دو کہ وہ اللہ یکتا ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے)۔
یہ وحدانیت صرف ذات میں ہی نہیں بلکہ صفات اور افعال میں بھی ہے۔ اللہ کے تمام صفات کامل ہیں اور ان میں کوئی نقص نہیں۔ اس کی ذات کسی بھی چیز سے مشابہت نہیں رکھتی۔

اللہ کی صفات

اللہ کی حقیقت کو اس کی صفات کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ کے 99 ناموں کا ذکر ملتا ہے، جو اس کی مختلف صفات کو ظاہر کرتے ہیں۔ 
مثلاً:
الرحمن، الرحیم (نہایت مہربان، رحم کرنے والا): یہ صفات اللہ کی بے پناہ رحمت اور شفقت کو ظاہر کرتی ہیں جو تمام مخلوقات پر محیط ہے۔
 الملک (بادشاہ): یہ صفت بتاتی ہے کہ اللہ ہی تمام کائنات کا حقیقی مالک اور حکمران ہے۔
القدوس (نہایت پاک): اللہ ہر عیب، نقص اور برائی سے پاک ہے۔
 السلام (سلامتی والا): وہ ہر قسم کی آفت اور برائی سے محفوظ ہے اور سلامتی کا سرچشمہ ہے۔
الخالق (پیدا کرنے والا): اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے، ہر وجود اسی کے حکم سے وجود میں آیا ہے۔
* المصور (صورت دینے والا): وہ ہر چیز کو کامل شکل و صورت عطا کرتا ہے۔
العلیم (جاننے والا): اللہ ہر ظاہر و باطن کو جانتا ہے، کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ نہیں۔
السمیع، البصیر (سننے والا، دیکھنے والا): وہ ہر چیز کو سنتا اور دیکھتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی یا پوشیدہ ہو۔
الرزاق (رزق دینے والا): تمام مخلوقات کا رزق اسی کے ہاتھ میں ہے۔
 الحی، القیوم (زندہ، قائم رہنے والا): وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، تمام کائنات اسی کے سہارے قائم ہے۔
القوی، العزیز (طاقتور، غالب): اللہ کی طاقت اور غلبہ بے انتہا ہے۔
یہ صفات صرف چند مثالیں ہیں، اللہ کی صفات کا احاطہ کرنا انسانی فہم سے بالا ہے۔ یہ صفات ہمیں اس کی عظمت، قدرت اور حکمت کا ادراک کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

اللہ اور کائنات

اللہ کی حقیقت کا ایک اور اہم پہلو اس کا کائنات سے تعلق ہے۔ وہ کائنات کا خالق ہے، لیکن وہ کائنات میں حلول نہیں کرتا۔ وہ کائنات سے بے نیاز ہے، لیکن ہر چیز پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
"إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ"
ترجمہ:
 (بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا)۔ 
رب تعالٰی کی تخلیقی قوت
رب تعالٰی کی تخلیقی قوت 


اس کا عرش تمام کائنات پر محیط ہے، اور اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔  رات اور دن کا بدلنا، سورج اور چاند کی حرکت، ستاروں کا جھلملانا، زمین پر زندگی کا وجود، سمندروں کی گہرائیاں اور پہاڑوں کی اونچائیاں، یہ تمام (اللہ تعالیٰ) کی واضح نشانیاں ہیں۔ ہر شے اس کی بے مثال تخلیقی قوت اور کامل حکمت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
کا شاہکار ہے۔

اللہ اور انسان

اللہ نے انسان کو اپنی مخلوقات میں سب سے اشرف بنایا۔ اسے عقل، شعور اور اختیار عطا کیا۔ انسان کو اللہ کی عبادت اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے پیدا کیا گیا۔
اللہ فرماتا ہے:
 "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"
ترجمہ:
 (میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے)۔

اللہ کی عبادت
اللہ کی عبادت


 اللہ نے انسان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیے انبیاء کرام اور آسمانی کتب نازل فرمائیں۔ یہ کتابیں اور پیغمبر اللہ کی ذات، صفات اور اس کے احکامات سے آگاہ کرتے ہیں۔ نبوت اور انسانیت کا سفر ہمیں بہت کچھ بتاتا اور سکھاتا ہے انسان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے، اس کی بندگی کرے اور اس کے احکامات پر عمل کرے۔

اللہ کی ذات کا ادراک

اللہ کی حقیقت کا مکمل ادراک انسانی عقل کے بس کی بات نہیں۔ وہ ایسا وجود ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ اسے نہ تو آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ تصورات میں لایا جا سکتا ہے۔ 
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
"لَّا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"
ترجمہ:
 (آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کا احاطہ کرتا ہے، اور وہ لطیف اور باخبر ہے)۔
 البتہ، اس کی نشانیوں، اس کی صفات اور اس کے کلام پر غور و فکر کے ذریعے اس کی عظمت اور بڑائی کا احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ معرفت الٰہی کا سفر دراصل اس کی قدرت اور حکمت پر تدبر کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ جتنا انسان کائنات میں غور کرتا ہے، اتنا ہی اسے اللہ کی تخلیق کی عظمت کا احساس ہوتا ہے، اور یہ احساس اس کے دل میں اللہ کی محبت، خوف اور اس کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !