رسالت (نبوت اور انسانیت کا سفر)

Dabistan_e_Islam
0

  رسالت (نبوت اور انسانیت کا سفر)

رسالت عربی زبان کا ایک بنیادی لفظ ہے جو "ارسال" سے مشتق ہے، جس کے معنی بھیجنا یا پیغام پہنچانا ہیں۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے اپنے منتخب بندوں، یعنی انبیاء و رسولوں کے ذریعے انسانیت تک اپنا پیغام، ہدایات اور احکامات پہنچانے کا ایک الٰہی نظام ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو دینِ اسلام کی بنیاد اور روح کو تشکیل دیتا ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خالقِ کائنات کی لامحدود حکمت اور رحمت کا عکاس ہے۔ رسالت کا تصور اس بنیادی حقیقت پر مبنی ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق کے مقصد، کائنات کے رازوں، اور اللہ کی رضا کو سمجھنے کے لیے الٰہی رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی فطرت کے مطابق، انسان کو اپنے خالق سے تعلق قائم کرنے اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ایک ایسے واسطے کی ضرورت تھی جو اللہ کے احکامات کو واضح، بے عیب اور مکمل طور پر پیش کر سکے۔ یہ واسطہ انبیاء و رسل کی مقدس جماعت تھی، جو الٰہی پیغام کی امانت دار تھیں۔
رسالت (نبوت اور انسانیت کا سفر)
  رسالت (نبوت اور انسانیت کا سفر)

ضرورتِ رسالت:

انسان کی عقل اور فہم و فراست، اگرچہ ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اس کی اپنی حدود ہیں۔ کائنات کی تخلیق کے گہرے راز، زندگی کا اصل مقصد، خیر و شر کا صحیح پیمانہ، اور آخرت کے تصورات جیسے پیچیدہ مسائل محض انسانی فکر کے ذریعے مکمل طور پر حل نہیں کیے جا سکتے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب کبھی انسانیت کو الٰہی رہنمائی سے محروم رکھا گیا، اس نے گمراہی، فکری انتشار اور فساد کی راہ اپنائی۔ اخلاقیات اور سماجی نظاموں کے بارے میں بھی انسانی آراء میں تنوع اور تناقض پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک متفقہ اور عالمگیر اخلاقی ضابطہ قائم کرنا ممکن نہ تھا۔ یہی وہ موڑ ہے جہاں رسالت کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت اور رحمت کے تحت انسان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا بلکہ وقتاً فوقتاً اپنے برگزیدہ بندوں کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ انسانیت کو سیدھا راستہ دکھائیں، شرک سے بچائیں، توحید کی دعوت دیں، اور ایک عادلانہ و پاکیزہ معاشرے کی بنیاد رکھیں۔ انبیاء کرام نے انسانیت کو ان روحانی اور اخلاقی اندھیروں سے نکالا جو محض مادی علم اور سطحی فکر سے حل نہیں ہو سکتے تھے۔ انہوں نے انسان کی باطنی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کیا اور اسے اس کے حقیقی مقام اور ذمہ داری سے آگاہ کیا۔

انبیاء و رسول کا مقام:

انبیاء (نبی کی جمع) اور رسول (رسول کی جمع) وہ منتخب ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عظیم فریضے کے لیے چنا۔ اگرچہ ہر رسول نبی ہوتا ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ رسول وہ ہے جسے نئی شریعت یا کتاب دی گئی ہو، جبکہ نبی سابقہ شریعت کی تائید اور تبلیغ کرتا ہے۔

ان ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی صفات سے نوازا تھا، جن میں سرفہرست معصومیت (گناہوں سے پاکیزگی) ہے۔ یہ عصمت انبیاء و رسول کی ذات، ان کے اقوال و افعال اور ان کے پیغامات کو ہر قسم کی غلطی، لغزش اور گمراہی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ، انہیں فصاحت و بلاغت، غیر معمولی حکمت، صبر و استقامت، اور معجزات کی قوت سے بھی سرفراز کیا گیا تاکہ وہ اپنے دعوے کی سچائی ثابت کر سکیں۔ انبیاء و رسول نے اپنی زندگیوں میں عملی نمونہ پیش کیا۔ وہ محض درس نہیں دیتے تھے انبیاء کرام اپنی ذات کو پیغام کا عملی مظہر بناتے تھے، اور ان کی زندگیاں اللہ کی اطاعت، انسانیت کی خدمت، اور حق کی تبلیغ کے لیے وقف تھیں۔ انہوں نے اپنی امتوں کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں بہترین نمونہ قائم کیا۔ ان کی تعلیمات میں روحانی رہنمائی کے ساتھ عملی ہدایات بھی شامل تھیں، جو ہر فرد اور معاشرے کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔

رسالت کے بنیادی مقاصد:

رسالت کے کئی بنیادی مقاصد ہیں جنہیں درج ذیل نکات میں سمجھا جا سکتا ہے:
توحید کی دعوت: تمام انبیاء و رسول کا سب سے پہلا اور اہم پیغام اللہ کی وحدانیت کا اقرار تھا۔ انہوں نے شرک کی تمام صورتوں کی نفی کی، بت پرستی، ستاروں کی پوجا، اور دیگر جھوٹے معبودوں سے انسانیت کو نجات دلائی، اور لوگوں کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔ اور بتایا سجدہ ریزی صرف اللہ کے لیے ہے نماز کیا ہے اور اسکی محبت کیا ہے یہ تمام الہامی مذاہب کی بنیاد اور اسلام کی روح ہے۔

ہدایت اور شریعت کا نزول: 

انبیاء کرام نے انسانیت کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کی۔ انہوں نے اللہ کے احکامات، حلال و حرام، اخلاقی اقدار اور سماجی اصولوں کی تعلیم دی۔ ہر رسول اپنی قوم کی ضروریات اور حالات کے مطابق ایک مکمل ضابطہ حیات (شریعت) لے کر آیا، جو ان کی زندگیوں کو منظم کرتا تھا اور انہیں راہِ راست پر گامزن کرتا تھا۔

ہدایت کا ذریعہ
ہدایت کا ذریعہ

اخلاق کی تکمیل: 
انبیاء نے اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کو فروغ دیا۔ سچائی، امانت، عدل، سخاوت، عفو و درگذر، صبر، شکر اور دوسروں کے حقوق کا احترام ان کی تعلیمات کا بنیادی جزو تھا۔ انہوں نے انسانی کردار کو بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا اور لوگوں کو اخلاقی کمال کی طرف راغب کیا۔
معاشرتی اصلاح:
 انبیاء نے اپنے معاشروں میں پھیلی ہوئی برائیوں، ناانصافیوں، ظلم و ستم اور استحصال کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے مساوات، انصاف، بھائی چارے اور باہمی تعاون پر مبنی ایک صالح معاشرے کی تشکیل کی جدوجہد کی تاکہ انسانیت ایک پرامن اور خوشحال ماحول میں زندگی گزار سکے۔
آخرت کا تصور:
 انبیاء نے لوگوں کو دنیاوی زندگی کی حقیقت اور آخرت کی ابدی زندگی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے یومِ حساب، جنت   اور جہنم کے بارے میں خبر دی۔تاکہ انسان اپنے اعمال کو دیکھتے ہوے اور جوابداہی کے مطابق زندگی گزارے.

مقصدِ زندگی اور فکرِ آخرت
مقصدِ زندگی اور فکرِ آخرت


باطن کی صفائی: 
رسالت کا ایک اہم مقصد انسانی روح اور باطن کی پاکیزگی تھا۔ انبیاء نے تزکیہ نفس اور قلب کو شرک، حسد، بغض، کینہ اور دیگر روحانی بیماریوں سے پاک کرنے کی تعلیم دی تاکہ انسان قلبی سکون اور روحانی ارتقا حاصل کر سکے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !