پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ

Dabistan_e_Islam
0


پاکستان کا مطلب کیا؟

​پاکستان کا مطلب ہے "پاک لوگوں کی سرزمین"۔

​یہ نام "پاک" اور "ستان" کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔


  • پاک: اس کا مطلب ہے "صاف"، "مقدس" یا "خالص"۔
  • ستان: اس کا مطلب ہے "جگہ" یا "سرزمین"۔

​یہ نام 1933 میں چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا تھا، جو اس وقت کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ اس نام کو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ وہ ایک ایسی جگہ پر رہیں جہاں وہ اپنی اسلامی شناخت اور ثقافت کے مطابق زندگی گزار سکیں۔


پاکستان زندہ باد
پاکستان زندہ باد


"پاکستان کا مطلب کیا: " لا الہ الا اللہ "

​"پاکستان کا مطلب کیا: " لا الہ الا اللہ " ایک مشہور سیاسی نعرہ ہے جو تحریک پاکستان کے دوران بہت مقبول ہوا تھا۔ اس نعرے کو اصغر سودائی نے 1944 میں پیش کیا تھا، اور یہ نعرہ اس وقت کے مسلمانوں کے جذبات اور مقاصد کی مکمل عکاسی کرتا تھا۔

 اس نعرے کا مطلب توحید کی بنیاد، علیحدہ شناخت اور   نظریاتی آزادی ہے  ​  

توحید کی بنیاد

​اس نعرے میں "لا الہ الا اللہ" کا مطلب ہے کہ "اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں"۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہوگی اور اللہ کی حاکمیت کو سب سے اعلیٰ سمجھا جائے گا۔ یہ نعرہ اس بات کا اعلان تھا کہ نیا ملک کسی انسانی طاقت یا نظریے کے تابع نہیں ہوگا، بلکہ صرف اور صرف اللہ کے احکامات پر چلے گا۔

علیحدہ شناخت اور نظریاتی آزادی

​برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اس نعرے نے ایک الگ اور واضح شناخت فراہم کی۔ یہ نعرہ اس بات کا جواب تھا کہ مسلمانوں کو ایک الگ ملک کی ضرورت کیوں ہے۔ یہ صرف سیاسی یا جغرافیائی علیحدگی نہیں تھی، بلکہ اس کا اصل مقصد ایک نظریاتی ریاست کا قیام تھا جہاں اسلامی اقدار اور اصولوں کو فروغ دیا جائے۔ اس نعرے نے مختلف مسالک اور علاقوں کے مسلمانوں کو ایک ہی جھنڈے تلے جمع کیا اور انہیں ایک مشترکہ مقصد فراہم کیا۔

اصل مقصد ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست
اصل مقصد ایک اسلامی اور نظریاتی ریاست

قائد اعظم اور یہ نعرہ

​قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اس نعرے کی اہمیت کو تسلیم کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اصغر سودائی کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک پاکستان میں ان کا کردار 25 فیصد ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ نعرہ تحریک پاکستان کی روح بن گیا تھا اور اس نے عام لوگوں میں آزادی کے جذبے کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کیا قرآن پاک میں ہے کے اپنی الگ ریاست قائم کی جاۓ ؟

​قرآنِ پاک میں براہِ راست یہ حکم موجود نہیں ہے کہ ایک الگ ریاست قائم کی جائے۔ تاہم، قرآن میں ایسے اصول اور احکامات دیے گئے ہیں جن کی روشنی میں مسلمانوں کو ایک ایسا نظام قائم کرنے کی ترغیب ملتی ہے جو اسلامی تعلیمات پر مبنی ہو۔

یہاں کچھ اہم نکات ہیں جو اس موضوع کی وضاحت کرتےہیں 

نظامِ عدل و انصاف کا قیام

​قرآن مجید میں بار بار عدل و انصاف قائم کرنے، مظلوموں کی مدد کرنے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کے احکامات کے مطابق ہو۔

: سورۃ النساء کی آیت 58 میں ارشاد ہوتا ہے 

"بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو لوٹا دو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔"

ایک ایسی ریاست جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ ممکن ہو، ان اصولوں پر عمل کرنے کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہے۔

دعوت و تبلیغ اور اسلامی اقدار کا تحفظ

​قرآن مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) کا حکم دیتا ہے۔

: سورۃ آل عمران کی آیت 104 میں ارشاد ہے  

"اور تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے، اور بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔"

اس آیت کا مفہوم ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایسی جماعت بنانے کی تلقین کی گئی ہے جو معاشرے میں نیکی کو فروغ دے اور برائیوں کا سدِباب کرے



مقصد الگ ریاست کا قیام اسلامی تعلیمات کا فروغ
مقصد الگ ریاست کا قیام اسلامی تعلیمات کا فروغ
 

ایک آزاد ریاست کے بغیر ان اقدار کا تحفظ اور تبلیغ کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے، مسلم دانشوروں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ایک ایسی ریاست کا قیام ضروری ہے جہاں اسلامی تعلیمات کو آزادانہ طور پر فروغ دیا جا سکے۔

تاریخی تناظر میں ہجرت اور مدینہ کی ریاست

​اگرچہ قرآن میں براہِ راست الگ ریاست کا حکم نہیں ہے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں مدینہ کی ریاست کا قیام اس کی ایک عملی مثال ہے۔ جب مکہ میں مسلمانوں کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا اور ان کا تحفظ کرنا مشکل ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں ایک آزاد ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہ ریاست اسلامی اصولوں پر مبنی تھی اور اس کا مقصد ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جو مکمل طور پر اللہ کے احکام کے تابع ہو۔

​لہٰذا، تحریک پاکستان کے دوران، اس دلیل کو قرآن اور سنت کی روشنی میں پیش کیا گیا کہ چونکہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے اپنی دینی شناخت اور اقدار کا تحفظ کرنا مشکل ہو رہا تھا، اس لیے ایک الگ اسلامی ریاست کا قیام ضروری تھا۔ اس طرح پاکستان کا قیام قرآن کے ان بنیادی اصولوں سے متاثر تھا جن کا مقصد ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جو مکمل طور پر اللہ کے احکامات کا پابند ہو۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !