قرآن پاک کی سورۃالنساء آیت 174 کا مفہوم
آیت مبارکہ
"یَا أَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَکُمْ بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّکُمْ"
(سورۃ النساء، آیت 174) کا ترجمہ ہے:
"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی ہے۔"
![]() |
سورت النساء کی آیت کا مفہوم |
اس آیت کی وضاحت اور اس میں پوشیدہ معانی درج ذیل ہیں:
1. "یَا أَیُّهَا النَّاسُ" (اے لوگو!)
یہ ایک عام پکار ہے جو تمام انسانوں، چاہے وہ کسی بھی مذہب، نسل یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں، کو مخاطب کرتی ہے۔ اس میں مسلمان، غیر مسلم، سب شامل ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرآن کا پیغام اور اس آیت کا مفہوم کسی خاص گروہ کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔
2. "قَدْ جَاءَکُمْ" (تمہارے پاس آ چکی ہے)
"قد" (یقیناً) کا لفظ اس بات پر زور دیتا ہے کہ جس چیز کا ذکر ہو رہا ہے وہ ایک یقینی اور قطعی حقیقت ہے۔ یہ کوئی محض خیال یا فلسفہ نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانوں تک پہنچ چکی ہے۔ "آ چکی ہے" کا مطلب ہے کہ یہ دلیل انسانوں کی دسترس میں ہے اور وہ اس پر غور و فکر کر سکتے ہیں۔
3. "بُرْهَانٌ مِنْ رَبِّکُمْ" (تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل)
یہ اس آیت کا سب سے اہم حصہ ہے۔ "برہان" کا مطلب ہے ایک ایسی دلیل، ثبوت یا نشانی جو شک و شبہ کی تمام گنجائشوں کو ختم کر دے اور کسی حقیقت کو مکمل طور پر واضح کر دے۔
یہاں اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور قرآن مجید ہے۔
- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:آپ کی سیرت، اخلاق، سچائی اور نبوت کے دلائل بذات خود ایک واضح برہان ہیں۔ آپ کی زندگی کھلی کتاب کی مانند تھی، جس میں کسی قسم کا شک نہیں تھا۔ آپ نے عرب معاشرے میں اخلاقی اور روحانی انقلاب برپا کیا جو کہ ایک معجزہ تھا
- قرآن مجید: یہ بذات خود اللہ کی طرف سے بھیجا گیا سب سے بڑا برہان ہے۔ اس کی فصاحت و بلاغت، سائنسی اشارے، پیش گوئیاں اور اس کا انسانیت کو دیا گیا جامع نظامِ حیات اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ یہ کسی انسان کی تخلیق نہیں ہو سکتا۔
![]() |
روشن ہدایت |
آیت کا مرکزی پیغام
یہ آیت انسان کو ایک اہم حقیقت کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اللہ نے اپنی حجت (دلیل) لوگوں پر تمام کر دی ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس تک حق نہیں پہنچا یا اسے صحیح راستہ نہیں دکھایا گیا۔ اللہ نے لوگوں کو ہدایت اور سچائی کی طرف بلانے کے لیے ایک روشن دلیل بھیجی ہے، جس کے بعد اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر غور کریں اور اسے قبول کریں۔ یہ آیت دراصل ایمان لانے کی دعوت ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ یہ دعوت دلیل اور مضبوط ثبوت پر مبنی ہے، نہ کہ محض اندھی تقلید پر۔
آقاۓ کائنات حضور اکرمﷺ کی ولادت باسعادت
نبی اکرم ﷺ کی ولادت 12 ربیع الاول کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ یہ دن تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ ﷺ کی آمد سے دنیا میں جاہلیت، ظلم اور اندھیروں کا خاتمہ ہوا، اور نورِ اسلام کی شمع روشن ہوئی۔