حضرت علی شیرِ خدا ؓ کا وسیع علم

Dabistan_e_Islam
0


حضرت علی شیرِ خدا ؓ کا وسیع علم

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علم وہ بحرِ بیکراں ہے جس کی گہرائیوں کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ ان کے علم کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے سب سے بڑی سند خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

"میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔"

یہ حدیث اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ جس علم کا منبع خود رسول اللہ کی ذات تھی، اس تک رسائی کا واحد ذریعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ 

حضرت علی شیرِ خدا ؓ کا وسیع علم
حضرت علی شیرِ خدا ؓ کا وسیع علم


ان کے علم کی وسعت اور گہرائی کو چند اہم نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

  قرآن کا گہرا فہم: 

حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کے ظاہر اور باطن دونوں کے عالم تھے۔ وہ ہر آیت کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ کب، کہاں اور کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ "بے شک علی ابن ابی طالب کے پاس قرآن کا علمِ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔"

  سنت کا وسیع علم: 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ "علی تمام لوگوں سے بڑھ کر سنت کا علم رکھنے والے ہیں۔" آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دعا فرمائی تھی کہ "اے اللہ! اس کی زبان کو حق کے لیے قوت دے اور اس کے دل کو حکمت سے بھر دے۔"

  حکمت اور معرفت: 

آپ رضی اللہ عنہ کے خطبات، ارشادات اور اقوال حکمت اور معرفت کا خزانہ ہیں۔ نہج البلاغہ میں موجود آپ کے خطبات کی فصاحت و بلاغت اور علمی گہرائی آج بھی بے مثال ہے۔ آپ نے علم اور حکمت کے بارے میں بہت قیمتی باتیں ارشاد فرمائیں، جیسے: "علم مال سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے جبکہ مال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے۔"


حضرت علیؓ  قرآن و سنت کے گہرے فہم
 حضرت علیؓ قرآن و سنت کےگہرے فہم


  قضا و اجتہاد میں مہارت: 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں اور اجتہاد کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت بڑا مقام حاصل تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔" آپ رضی اللہ عنہ مشکل سے مشکل مسائل کو بھی بہت آسانی سے حل کر دیتے تھے۔

  علم کے ہزار دروازے: 

ایک روایت میں خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے علم کے ہزار دروازے سکھائے اور ہر دروازے سے ہزاروں دروازے کھلتے ہیں۔" اس سے آپ کے علم کی لامحدود وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ان تمام باتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک بہادر جنگجو اور عادل حکمران تھے، بلکہ وہ علم و حکمت کے بھی امام تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کو واقعی "باب العلم" ہونے کا شرف حاصل تھا۔


 باب العم ہونے کے والے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور پادری کے سوالات کا ایک مشہور واقعہ ہے جو آپؓ کی علمی گہرائی، فلسفیانہ بصیرت اور غیر معمولی ذہانت کا ثبوت ہے۔

واقعہ کا پس منظر

ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ایک عیسائی پادری آیا اور اس نے آپ کی شہرت سن کر کچھ ایسے سوالات پیش کیے جن کے جوابات عام طور پر مشکل سمجھے جاتے تھے۔ ان سوالات کا مقصد مسلمانوں کے عقائد اور علم کی جانچ کرنا تھا۔ پادری کو یقین تھا کہ حضرت علیؓ ان سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے یا کوئی مبہم جواب دیں گے۔

پادری کے سوالات اور حضرت علی کے جوابات

پادری نے حضرت علی سے کچھ سوالات پوچھے، جن میں سے چند اہم سوالات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں:

1. پہلا سوال: "وہ کون سی چیز ہے جو اللہ نے پیدا کی مگر اس کا رنگ نہیں ہے؟"

جواب: "رات اور دن"۔

حضرت علی کا یہ جواب سن کر پادری حیران رہ گیا۔ رات کا تعلق اندھیرے سے اور دن کا تعلق روشنی سے ہے، یہ دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جن کا کوئی ٹھوس رنگ نہیں ہوتا بلکہ یہ روشنی اور اندھیرے کے تسلسل سے وجود میں آتی ہیں۔

2. دوسرا سوال: "وہ کون سی چیز ہے جو اللہ نے پیدا کی مگر اسے ناپسند کیا؟"

جواب: "مکڑی کے جالے"۔

پادری نے پھر پوچھا: "ایسی کون سی چیز ہے جو اللہ نے پیدا کی مگر اس کو ناپسند کیا؟" حضرت علی نے جواب دیا: "مکڑی کے جالے"۔ کیونکہ مکڑی کے جالے گندگی اور نحوست کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔

3. تیسرا سوال: "وہ کون سی چیز ہے جو اللہ نے پیدا کی مگر وہ بغیر باپ اور ماں کے پیدا ہوئی؟"

جواب: "حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال بھی اس میں شامل ہے۔"

یہ ایک ایسا سوال تھا جو پادری کو اس لیے پریشان کرتا تھا کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے خدا کا بیٹا مانتا تھا، مگر حضرت علیؓ نے حضرت آدم اور حواؑ کا ذکر کرکے اس کو ایک جامع اور منطقی جواب دیا، جو تمام الہامی مذاہب کے لیے قابلِ قبول ہے۔

4. چوتھا سوال: "وہ کون سی چیز ہے جو دشمنوں کی دشمن ہے اور دوستوں کی دوست ہے؟"

جواب: "دماغ"۔

یہ ایک فلسفیانہ سوال تھا جس کا جواب بھی نہایت فلسفیانہ انداز میں دیا گیا۔ دماغ انسان کو دوستوں کی پہچان میں مدد دیتا ہے، جبکہ دشمنوں کی شناخت کرنے میں بھی معاون ہوتا ہے۔

5. پانچواں سوال: "وہ کون سی چیز ہے جو آپس میں کبھی دشمن نہیں بنیں گی؟"

جواب: "جسم اور روح"۔

یہ سن کر پادری کی حیرت میں اور اضافہ ہوا۔ اس نے پوچھا کہ وہ کون سے دو دوست ہیں جو کبھی ایک دوسرے کے دشمن نہیں بن سکتے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: "جسم اور روح"۔

نتیجہ

حضرت علی کے یہ تمام جوابات سن کر پادری بہت متاثر ہوا اور اس نے حضرت علی کے علم اور ذہانت کی تعریف کی اور کہا کہ:  "بے شک آپ علم کے شہر کا دروازہ ہیں۔"

یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت علی کے پاس صرف دینی علم ہی نہیں بلکہ کائنات کے مختلف پہلوؤں پر بھی گہری بصیرت موجود تھی۔ ان کے جوابات میں علم، منطق اور فلسفے کا حسین امتزاج تھا۔

واقعہ سائل کا راز

یہ واقعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذہانت، فراست اور انسان شناسی کی ایک اور بے مثال مثال ہے۔ اس واقعے میں آپ نے نہ صرف ایک ظاہری مسئلے کو حل کیا بلکہ ایک انسان کی چھپی ہوئی نفسیاتی حالت اور اس کے ارادے کو بھی فاش کر دیا۔

پس منظر
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور شکایت کی کہ "میں ایک سائل (بھکاری) سے پریشان ہوں جو ہر روز میرے گھر کے دروازے پر آتا ہے اور اصرار کے ساتھ مجھ سے کچھ مانگتا ہے۔ اگرچہ میں اسے کئی بار کچھ دے چکا ہوں لیکن اس کا اصرار ختم نہیں ہوتا۔"
حضرت عمرؓ نے اس مسئلے کو سمجھا اور پھر اس شخص کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس بھیج دیا، تاکہ وہ اس معاملے کا کوئی حل نکالیں۔

حضرت علی کا حکم
جب وہ شخص حضرت علیؓ کے پاس پہنچا اور اس نے اپنا مسئلہ بیان کیا تو حضرت علیؓ نے اسے غور سے سنا اور پھر اسے ایک انوکھا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا:
"جب وہ سائل کل تمہارے دروازے پر آئے تو اسے سختی سے منع کرنا اور کہنا کہ 'میرے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں ہے'۔ اگر وہ پھر بھی نہ جائے اور زور دے تو اسے ایک چادر دے دینا جو تم نے اوپر اوڑھ رکھی ہے۔"
اس شخص نے حیرانی کے ساتھ حضرت علیؓ کا حکم سنا اور واپس چلا گیا۔

سائل کا راز فاش
اگلے دن وہ سائل اس شخص کے گھر کے دروازے پر آیا اور حسبِ معمول کچھ مانگنے لگا۔ اس شخص نے حضرت علیؓ کے حکم کے مطابق اسے سختی سے منع کیا، لیکن وہ سائل باز نہ آیا۔ جب اس کا اصرار بڑھا تو اس شخص نے اپنی اوڑھی ہوئی چادر اتار کر اس سائل کو دے دی۔
اس کے بعد وہ شخص حضرت علیؓ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا اور بتایا کہ اس نے ان کے حکم کی تعمیل کر دی ہے۔
حضرت علیؓ نے اس شخص سے پوچھا: "تم نے اسے چادر دی؟"
اس شخص نے جواب دیا: "جی ہاں، دی!"


حکم علی ؓ کی تکمیل آدمی کا سائل کو چادر دینا
حکم علیؓ کی تکمیل آدمی کا سائل کو چادر دینا


حضرت علیؓ نے فرمایا: "بہت اچھا! اب تم ایسا کرو کہ میرے پاس فلاں گلی میں موجود ایک یہودی سنار کے پاس جاؤ اور اس سے کہنا کہ 'علیؓ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اس شخص سے وہ چادر خرید لو جو اس نے کسی سائل کو دی ہے'۔"

چادر کی حقیقت
جب وہ شخص یہودی سنار کے پاس گیا تو سنار نے اس سے وہ چادر خریدنے پر رضامندی ظاہر کی۔ جب وہ سائل کو ڈھونڈ کر آیا اور اس سے وہ چادر مانگی تو سائل ہچکچانے لگا۔ پھر جب سنار نے اس سے چادر خریدنے کی بات کی تو سائل نے وہ چادر سنار کو فروخت کر دی۔
جب سنار نے وہ چادر دیکھی تو وہ حیران رہ گیا۔ اس چادر میں ہیرے اور جواہرات چھپے ہوئے تھے۔ وہ سائل دراصل ایک چور تھا جو امیر لوگوں کے گھروں کی جاسوسی کرتا تھا اور اس طرح کے بہانوں سے ان کے گھروں سے قیمتی چیزیں چرایا کرتا تھا۔ وہ اس چادر میں ہیرے اور جواہرات چھپا کر لے جا رہا تھا۔

واقعہ کا نتیجہ
جب وہ شخص حضرت علیؓ کے پاس واپس آیا تو انہیں یہ پورا ماجرا سنایا۔ حضرت علیؓ نے مسکرا کر فرمایا کہ: "اسی وجہ سے میں نے تمہیں اس سائل کو وہ چادر دینے کا حکم دیا تھا، تاکہ اس کا راز فاش ہو سکے۔"
یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نہ صرف ظاہری علم حاصل تھا بلکہ وہ انسان کی نفسیات اور اس کے ارادوں کو بھی بخوبی سمجھتے تھے۔ ان کی فراست اور ذہانت اس قدر گہری تھی کہ وہ ایک چھوٹے سے اشارے سے پورے مسئلے کی تہہ تک پہنچ گئے۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !