عشق مجازی میں بہنے والے آنسوؤں کی نوعیت اور راہِ عشقِ حقیقی کی طرف گامزن
عشق مجازی میں بہنے والے آنسوؤں کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے عشق مجازی کے مفہوم کو واضح کیا جائے۔ عشق مجازی سے مراد وہ محبت ہے جو کسی انسان سے کی جائے چاہے وہ جسمانی ہو یا روحانی، لیکن اس کا تعلق ذاتِ حق یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ ہو۔ اس کے برعکس، عشق حقیقی وہ محبت ہے جو صرف اللہ تعالیٰ سے ہو۔
 |
عشق مجازی میں بہنے والے آنسوؤں کی نو عیت اور راہِ عشقِ حقیقی کی طرف گامزن |
عشق مجازی میں بہنے والے آنسوؤں کی نوعیت کئی پہلوؤں سے مختلف ہے:
حسرت اور ناکامی کے آنسو: جب عشق مجازی میں انسان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے، جیسے محبوب کا وصال نہ ہو سکے، یا تعلق ٹوٹ جائے، تو یہ آنسو گہرے حسرت اور مایوسی کا اظہار ہوتے ہیں۔ ان میں کھو جانے والے رشتے یا حاصل نہ ہو سکنے والی محبت کا درد شامل ہوتا ہے۔
جدائی اور فراق کے آنسو: محبوب کی جدائی، دوری یا ہجر کے لمحات میں بہنے والے آنسو غم، بے چینی اور تڑپ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ وہ آنسو ہوتے ہیں جو محبوب کی یاد میں، اس کی قربت کی خواہش میں اور اس کے بغیر ادھورے پن کے احساس میں بہتے ہیں۔
محبت اور وارفتگی کے آنسو: بعض اوقات یہ آنسو صرف محبت، عقیدت اور وارفتگی کا اظہار ہوتے ہیں۔ جب عاشق اپنے محبوب کے حسن، اس کے اخلاق یا اس کی باتوں سے متاثر ہوتا ہے، تو شدتِ جذبات کے عالم میں بھی آنکھیں نم ہو سکتی ہیں۔ یہ آنسو خوشی، تعریف اور گہرے لگاؤ کی علامت ہوتے ہیں۔
پشیمانی اور گناہوں کے آنسو: اگر عشق مجازی انسان کو کسی غلط راستے پر لے جائے، یا اس کے نتیجے میں کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس پر بعد میں پچھتاوا ہو، تو بہنے والے آنسو پشیمانی، ندامت اور گناہ کے بوجھ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسے آنسو انسان کی اندرونی کشمکش اور اصلاح کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔
خوشی اور شکر گزاری کے آنسو: کبھی کبھار محبوب کے وصال، اس کی قربت یا اس کی طرف سے کسی عنایت کے حصول پر بھی آنسو بہتے ہیں جو انتہائی خوشی، شکر گزاری اور جذباتی اطمینان کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہ آنسو دل کے سکون اور حاصل شدہ نعمت پر شادمانی کو ظاہر کرتے ہیں۔
 |
عشقِ مجازی کی اصل |
کیا عشق مجازی میں بہنے والے آنسو عشق حقیقی تک لے جاتے ہیں؟
یہ ایک گہرا فلسفیانہ اور روحانی سوال ہے جس پر مختلف صوفیاء، دانشوروں اور مفکرین کی آراء مختلف رہی ہیں۔ مختصراً، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاں، عشق مجازی میں بہنے والے آنسو بسا اوقات عشق حقیقی تک پہنچنے کا ایک ذریعہ بن سکتے ہیں۔ تاہم، یہ ایک خودکار عمل نہیں بلکہ اس میں نیت، فہم اور رہنمائی کا بڑا دخل ہوتا ہے۔
اس نظریے کی توجیہات مندرجہ ذیل ہیں:
مجاز سے حقیقت کی طرف سفر: بہت سے صوفیاء کا ماننا ہے کہ عشق مجازی دراصل عشق حقیقی کی سیڑھی ہے۔ جب انسان کسی مخلوق سے محبت کرتا ہے، اس کے حسن و جمال میں کھو جاتا ہے، تو بالآخر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس مخلوق کا حسن محدود اور فانی ہے۔ یہ خوبصورتی کسی ماورائی اور لازوال حسن کا پرتو ہے۔ اس ادراک کے بعد، دل خود بخود اس اصل منبعِ حسن یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ عشق مجازی میں بہنے والے آنسو اس انسانی محبت کی گہرائی اور اس سے وابستہ تڑپ کو ظاہر کرتے ہیں، جو بعد میں الٰہی محبت کی طرف منتقل ہو سکتی ہے۔
انسان کی فطری پیاس: انسان کی فطرت میں محبت کی ایک گہری پیاس موجود ہے۔ یہ پیاس جب کسی انسانی رشتے سے پوری نہیں ہوتی، یا اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو انسان ایک ایسے مکمل اور لازوال رشتے کی تلاش میں نکلتا ہے جو اسے اطمینان بخش سکے۔ یہ تلاش اکثر اسے خالقِ حقیقی کی طرف لے جاتی ہے۔ عشق مجازی کی ناکامیاں اور اس کے آنسو انسان کو اپنی بے بسی کا احساس دلاتے ہیں اور اسے الٰہی قربت کی طرف دھکیلتے ہیں۔
تزکیہ نفس کا ذریعہ:
عشق مجازی (غیر حقیقی یا دنیوی محبت) بعض اوقات انسان کی روح کو پاکیزگی بخشتا ہے اور اسے تزکیۂ نفس کی جانب گامزن کرتا ہے۔ اس میں انسان کی انا (خود پسندی) ٹوٹتی ہے، وہ دوسروں کے لیے قربانی دینا سیکھتا ہے، اور بے غرض ہو کر سوچنے لگتا ہے۔
محبت کی یہ کیفیات انسان کی روحانی بالیدگی کا سبب بنتی ہیں۔ جب یہ جذبات پاکیزگی کی انتہا کو پہنچتے ہیں، تو انسان کے دل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی محبت کے لیے راہ ہموار ہونا شروع ہو جاتی ہے عشق مجازی کے غم اور آنسو انسان کو روحانی طور پر پاک کر سکتے ہیں، جس سے وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔
راہِ سلوک کا پہلا قدم: کئی بزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ جس نے مجاز کو نہیں دیکھا، وہ حقیقت تک کیسے پہنچے گا۔ یعنی دنیاوی محبت کے تجربات، چاہے وہ کتنے ہی دکھ بھرے کیوں نہ۔
 |
شکر گزاری |
خلاصہ:
یہ کہ عشق مجازی میں بہنے والے آنسو انسانی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ یہ غم، خوشی، حسرت، جدائی، پشیمانی، اور محبت جیسے مختلف احساسات کا ترجمان ہو سکتے ہیں۔ عاشق کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے یہ آنسو، اس کے شدید دکھ یا مسرت کا اظہار ہوتے ہیں۔ انسان کو روحانی تجربات کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ عشق مجازی میں جو تڑپ، جو سوز اور جو بے قراری ہوتی ہے، وہی شدت اگر اللہ کی محبت میں پیدا ہو جائے تو انسان کو عشق حقیقی کی منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ لیکن اس میں احتیاط بھی لازم ہے یہ ضروری نہیں کہ عشق مجازی ہمیشہ عشق حقیقی تک لے جائے۔ اگر انسان عشق مجازی میں ہی الجھا رہے اور اس سے سبق حاصل نہ کرے، تو یہ اسے گمراہی کی طرف بھی لے جا سکتا ہے۔ حقیقی تبدیلی تب ہی آتی ہے جب انسان اپنے محبوبِ مجازی میں ذاتِ حق کے جلوے کو محسوس کرے اور اس سے آگے بڑھ کر اصل حقیقت کی طرف رخ کرے
لہٰذا، عشق مجازی میں بہنے والے آنسو ایک اشارہ، ایک راستہ اور ایک پکار ہو سکتے ہیں جو انسان کو لاشعوری طور پر اللہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسان کا دل محبت کا پیاسا ہے، اور اس پیاس کی حقیقی تسکین صرف اللہ کی محبت میں ہے۔