انوار الٰہی حاصل کرنے کے لیے روحانی اور عملی اقدامات کے ساتھ اللہ کے نور کا حاصل اور کیفیت کا اظہار
نورِ الٰہی حاصل کرنے کے لیے کیا کرے؟
نورِ الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت، ہدایت، اور اس کے قرب کا حصول ہے۔ یہ کوئی مادی روشنی نہیں بلکہ قلبی اور روحانی نور ہے جو انسان کو صحیح راستے پر گامزن کرتا ہے اور اسے باطنی سکون فراہم کرتا ہے۔
 |
اللہ سے قریبی کا ذریعہ |
اسے حاصل کرنے کے لیے کئی روحانی اور عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
1. ایمان کو مضبوط کریں
نورِ الٰہی کی بنیاد پختہ ایمان ہے۔ اللہ پر، اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، فرشتوں پر، یومِ آخرت پر اور تقدیر پر کامل یقین رکھیں۔ یہ یقین جتنا مضبوط ہوگا، نور اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
2. عبادات کا اہتمام کریں
نماز: پنجگانہ نماز کی پابندی کریں۔ نماز اللہ سے براہ راست رابطے کا ذریعہ ہے اور روحانی ترقی کے لیے بنیادی ستون ہے۔
قرآن کی تلاوت اور فہم: قرآن مجید اللہ کا کلام اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ باقاعدگی سے تلاوت کریں، اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس پر غور و فکر کریں۔
ذکر و اذکار: اللہ کا ذکر کثرت سے کریں۔ اس میں تسبیحات، استغفار، درود شریف، اور دیگر مسنون دعائیں شامل ہیں۔ ذکر سے دل روشن ہوتا ہے۔
روزہ: رمضان کے روزے رکھیں اور نفلی روزوں کا بھی اہتمام کریں۔ روزہ نفس کو پاک کرتا ہے اور روحانیت کو جلا بخشتا ہے۔
صدقہ و خیرات: اللہ کی راہ میں خرچ کرنا دل کو نرم کرتا ہے اور روحانی فیض کا باعث بنتا ہے۔
3. اخلاق حسنہ اپنائیں
صبر و شکر: ہر حال میں صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھیں۔
عاجزی و انکساری: تکبر سے بچیں اور عاجزی اپنائیں۔
سچائی اور امانت داری: ہمیشہ سچ بولیں اور امانتوں میں خیانت نہ کریں۔
حسن سلوک: تمام مخلوق کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔ کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
توبہ و استغفار: گناہوں سے بچیں اور اگر گناہ سرزد ہو جائیں تو فوراً توبہ کریں اور اللہ سے معافی مانگیں۔
4. صحبت صالحین اختیار کریں:
نیک اور پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔ ان کی باتوں اور عمل سے رہنمائی حاصل کریں، کیونکہ اچھی صحبت انسان کو نیکی کی طرف راغب کرتی ہے۔
5. غور و فکر اور تدبر
اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کریں۔ کائنات، اس کی تخلیق، اور اس میں موجود حکمتوں پر غور کریں جو اللہ کی عظمت اور وحدانیت کا ادراک پیدا کرتی ہے۔
6. نفس کا محاسبہ
اپنے اعمال اور نیتوں کا جائزہ لیتے رہیں۔ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو پہچان کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں۔
ان اقدامات پر عمل پیرا ہو کر، انسان اللہ کے نور کو اپنے قلب میں محسوس کر سکتا ہے اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج طے کر سکتا ہے۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے جس میں استقامت اور لگن ضروری ہے۔
 |
نفس کا محاسبہ اور عبادات کا اہتمام |
جو نور الٰہی حاصل کر لیتا ہے اس کو کیا محسوس ہوتا ہے
اللہ کے نور سے ایک ادنٰی چھنٹے کا مل جانا
اگر انوارِ الٰہی کا ایک چھنٹا بھی مل جائے، تو یہ کیفیت اتنی گہری اور جامع ہوتی ہےکہ اسے یوں سمجھیں جیسے ایک اندھیرے کمرے میں اچانک ایک طاقتور روشنی کا چھوٹا سا جھونکا آ جائے۔یہ صرف بینائی کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ پورے ماحول کو بدل دیتا ہے۔یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کو الفاظ میں مکمل طور پر بیان کرنا مشکل ہے
نورِ الٰہی حاصل کرنے والا شخص قلبی سکون، روحانی اطمینان، اور باطنی بصیرت محسوس کرتا ہے۔
لیکن اس کے کچھ نمایاں اثرات اور محسوسات درج ذیل ہیں:
1. قلب میں غیر معمولی سرور، ٹھنڈک سکون اور اطمینان
سب سے پہلا اور نمایاں احساس قلب میں ایک غیر معمولی سرور اور ٹھنڈک کا ہوتا ہے۔ یہ ایسی لذت اور سکون ہوتا ہے جو دنیا کی کوئی بھی مادی چیز فراہم نہیں کر سکتی۔ جس شخص کو نورِ الٰہی حاصل ہوتا ہے، اس کے دل سے بے چینی، پریشانی، اور اضطراب دور ہو جاتا ہے۔اور اس کی جگہ ایک ایسا گہرا اطمینان لے لیتا ہے جسے "شرح صدر" (سینے کا کھل جانا) کہا جا سکتا ہے۔یعنی اسے اپنے اندر ایک ایسا گہرا قلبی سکون محسوس ہوتا ہے جو دنیاوی فکروں اور غموں سے ماورا ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دل پر جمی تمام کثافتیں اور گرد دور ہو گئی ہو، اور وہ ہلکا پھلکا ہو کر اللہ کی یاد میں مست ہو گیا ہو اسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے کنٹرول میں ہے، اور یہی یقین اسے ہر حال میں مطمئن رکھتا ہے۔
 |
قلب میں غیر معمولی سرور، ٹھنڈک سکون اور اطمینان |
2. اللہ سے قربت کا شدید احساس
ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو اپنے بہت قریب محسوس کرتا ہے ایک لمحے کے لیے ہی سہی، اسے ربّ کی قربت کا اتنا شدید احساس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ بالکل اس کے سامنے ہے، اسے دیکھ رہا ہے، اس کی سن رہا ہے۔اور اس کی رہنمائی کر رہا ہے اسے لگتا ہے کہ اللہ ہر وقت اس کے ساتھ ہے، اس کی دعائیں سنتا ہے، یہ قربت کا احساس روحانی طور پر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسان کو کی اپنی ہستی اس کے مقابلے میں بہت حقیر محسوس ہوتی ہے۔یہاں تک کہ اس کے اندر سے تنہائی کا احساس ختم ہو جاتا ہے اس قربت کے احساس کے ساتھ ایک ہیبت اور محبت کا عجیب امتزاج ہوتا ہے جو روح کو جھنجوڑ دیتا ہے
3. روحانی بصیرت اور ہدایت
نورِ الٰہی سے انسان کی روحانی بصیرت کھل جاتی ہے۔ اسے حق اور باطل، نیکی اور بدی کے درمیان فرق واضح نظر آنے لگتا ہے۔ فیصلے کرنے میں اسے آسانی ہوتی ہے کیونکہ اللہ کی طرف سے اسے ایک خاص ہدایت اور رہنمائی ملتی ہے۔ اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ کی قدرت اور نشانیوں کا ادراک ہوتا ہے۔شعاعر نے کیا خوب لکھا ہے۔
اندھیروں میں بھٹکوں تو روشنی دکھا دے،
میرے دل میں یا ربّ، اپنا نور بسا دے۔
4. حسنِ اخلاق اور دوسروں سے ہمدردی
اگرچہ یہ ایک چھنٹا ہی ہوتا ہے، لیکن اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر حسنِ اخلاق کی طرف ایک فطری میلان پیدا ہو جاتا ہے۔ نورِ الٰہی سے منور دل والا شخص دوسروں کے لیے محبت، ہمدردی اور نرمی یعنی عفو و درگزر کا جزبہ رکھتا ہے۔ تکبر، حسد اور بغض جیسی اندرونی بیماریاں ہلکی پڑ جاتی ہیں، اس کے اخلاق خود بخود اچھے ہو جاتے ہیں کیونکہ اسے اللہ کی مخلوق سے محبت محسوس ہوتی ہے۔ آخر وہ ان غرور، تکبر، حسد اور بغض جیسی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
5. دنیا کی بے ثباتی کا ادراک
ایسے شخص کو دنیا کی حقیقت اور اس کی بے ثباتی کا ادراک ہو جاتا ہے۔ وہ دنیاوی مال و دولت، شہرت، اور جاہ و حشم کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی نظر آخرت پر مرکوز ہو جاتی ہے، اور وہ اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ یہ ادراک اسے دنیاوی نقصان یا فائدے سے زیادہ متاثر نہیں ہونے دیتا۔
 |
دنیا کی بے ثباتی کا ادراک |
6. گناہوں سے شدید نفرت
اس چھینٹے کے ملتے ہی، انسان کے اندر گناہوں سے ایک شدید نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے اپنے ماضی کے گناہوں پر ندامت اور شرمندگی محسوس ہوتی ہے، اور وہ آئندہ ان سے بچنے کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے۔ گویا یہ نور اسے گناہوں کی تاریکی سے نکال کر نیکی کی روشنی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ یہ نفرت کوئی زبردستی نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک اندرونی قلبی تبدیلی ہوتی ہے جو اسے برائی کی طرف رغبت سے مکمل طور پر دور کر دیتی ہے
7. عبادات میں لذت
عبادات، جیسے نماز، تلاوتِ قرآن، اور ذکر و اذکار، اس کے لیے بوجھ نہیں رہتیں بلکہ لذت کا باعث بن جاتی ہیں۔ اسے عبادت میں ایک خاص سرور اور حلاوت محسوس ہوتی ہے جو اسے مزید عبادت کی طرف راغب کرتی ہے۔ شعاعر نے کیا خوب لکھا ہے۔
جو دل میں اترے تو کر دے منور جہاں،
وہ نورِ خدا ہے جو خود ہے بے نشاں
8. خوفِ خدا اور سچی امید
ایک طرف اسے اللہ کا خوف ہوتا ہے کہ کہیں وہ نافرمانی نہ کر بیٹھے، وہ اس کی حدود کو پامال کرنے سے ڈرتا ہے۔ دوسری طرف، اسے اللہ کی رحمت پر پورا بھروسہ اور امید ہوتی ہے کہ وہ اسے معاف کر دے گا اور اس کے گناہوں کو بخش دے گا۔ یہ خوف اور امید کا توازن اسے راہِ راست پر رکھتا ہے۔
یہ نور کا چھینٹا دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ ہوتا ہے، جس کا مقصد بندے کے دل میں ایمان اور محبت کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ یہ اُسے صحیح راستے پر قائم رہنے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کا قرب حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔
مختصراً، نورِ الٰہی حاصل کرنے والا شخص ایک روحانی کیفیت میں ہوتا ہے جہاں اسے حقیقی سکون، بصیرت، اور اللہ سے قربت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد بدل جاتا ہے اور وہ اپنے ہر عمل میں اللہ کی رضا تلاش کرتا ہے۔