حقیقتِ نور (اللہ نور ہے) اور انوار الٰہی کا دل میں اترنا

Dabistan_e_Islam
0

 حقیقتِ نور (اللہ نور ہے) اور انوارِ الٰہی کا دل میں اترنا

اللہ نور ہے (گہرائی میں مفہوم)

"اللہ نور ہے" (Allah is Light) ایک نہایت پُر معنی اور جامع قرآنی آیت کا حصہ ہے جو سورہ نور کی آیت نمبر 35 میں بیان کی گئی ہے۔ اس کا سادہ ترجمہ اگرچہ "اللہ نور ہے" ہے، لیکن اس کی گہرائی میں کائنات اور ذاتِ باری تعالٰی کے بارے میں بہت سے حقائق پنہاں ہیں۔ 


اللہ نور ہے
اللہ نور ہے


آئیے اس کی گہرائیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

1. اللہ ہی ہر چیز کا روشن کرنے والا ہے

نور کا سب سے بنیادی مطلب روشنی ہے۔ جس طرح روشنی کے بغیر کوئی چیز نظر نہیں آتی، اسی طرح اللہ تعالٰی کے بغیر کائنات کا کوئی وجود نہیں۔ وہ ہر چیز کو اپنی قدرت، علم اور حکمت سے روشن کرتا ہے۔ یہ روشن کرنا صرف حسی یا ظاہری نہیں بلکہ معنوی بھی ہے:

 کائنات کی روشنی: سورج، چاند، ستارے اور آگ کا نور سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ وہ ہر روشن چیز کا خالق ہے۔

  ہدایت کی روشنی: اللہ تعالٰی انسانوں کے دلوں اور عقلوں کو اپنی وحی، اپنے پیغامات (قرآن، سنتِ رسول) اور اپنے انبیاء کے ذریعے روشن کرتا ہے۔ یہی ہدایت کی روشنی ہے جو انسان کو بھٹکنے سے بچاتی ہے۔

 علم کی روشنی: ہر علم، ہر سچائی اور ہر دانائی کا منبع اللہ ہے۔ وہ انسانوں کو علم کی روشنی سے نوازتا ہے تاکہ وہ حق اور باطل میں فرق کر سکیں۔


2. اللہ خود ظاہر ہے اور ہر چیز کو ظاہر کرنے والا ہے

 اللہ کی ذات نور ہے کا ایک اور مفہوم

اللہ کی ذات اپنی پہچان کے لیے کسی ثبوت کی محتاج نہیں۔ وہ خود ہر چیز سے بڑھ کر عیاں ہے، اور اس کی نشانیاں، اس کی قدرت اور اس کی حکمت کائنات کے ہر ذرے میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسی لیے وہ خود بھی ظاہر ہے اور اپنی نشانیوں کے ذریعے ہر چیز کو انسانوں پر ظاہر کرتا ہے۔ وہ اندھیرے (جہالت، گمراہی) سے نکال کر روشنی (علم، ہدایت) کی طرف لاتا ہے۔


3. اللہ ہر قسم کی خامیوں سے پاک ہے

نور کا مطلب پاکیزگی بھی ہے۔ نور جب کسی چیز پر پڑتا ہے تو اسے روشن کر دیتا ہے اور اس میں موجود خامیوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی ذات ہر قسم کی خامی، نقص، شریک اور کمزوری سے پاک ہے۔ وہ کامل اور بے عیب ہے۔ اس کی ذات کا تصور ہر عیب سے مبرا ہے۔


4. اللہ ہی ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے

نور کا ایک مفہوم قائم رکھنا بھی ہے۔ جس طرح روشنی کے بغیر زندگی کا تصور مشکل ہے، اسی طرح اللہ کے بغیر کائنات کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی وہ قائم رہ سکتی ہے۔ وہ ہی ہر چیز کو تھامے ہوئے ہے، اسے قائم رکھے ہوئے ہے اور اسے زندگی بخشے ہوئے ہے۔

5. اللہ نورٌ علٰی نور (نور پر نور)

آیتِ نور میں آگے چل کر اللہ تعالٰی اپنی ذات کو "نورٌ علٰی نور" یعنی "نور پر نور" قرار دیتا ہے۔ یہ اس کی ذات کی عظمت، پاکیزگی، اور مکمل ترین روشنی کا بیان ہے جس پر کوئی دوسرا نور نہیں اور جو تمام نوری صفات کا منبع ہے۔ اللہ کی واحدانیت اور اس کا وجود اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ یکتا ہے شاعر کیا خوب لکھتا ہے 

وہ ذاتِ واحد، جو ہر نور کا ہے منبع،

اس کے ہی دم سے ہے یہ سارا عالم مرفع


خلاصہ یہ کہ "اللہ نور ہے" کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی کوئی مادی شکل یا روشنی ہے، بلکہ یہ اس کی صفاتِ کمال کا بیان ہے وہ ہر چیز کا خالق، ظاہر کرنے والا، ہدایت دینے والا، علم بخشنے والا، پاکیزہ، اور ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔ وہ ہی کائنات کا مرکز، اور تمام نور کا سرچشمہ ہے۔ 

اللہ پوری کائنات کا مرکز اور نور کا سرچشمہ ہے
اللہ پوری کائنات کا مرکز اور نور کا سر چشمہ ہے


یہ ایک ایسی گہری حقیقت ہے جو انسان کو اللہ کی عظمت، قدرت، اور اس کی رہنمائی کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔

انوارِ الٰہی کا دل میں اترنا (Nūr-e Ilāhī kā Dil Mein Utarnā)

"نورِ الٰہی کا دل میں اترنا" ایک گہرا روحانی اور صوفیانہ تصور ہے جس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی نورانیت، ہدایت، اور فضل کا انسان کے دل میں داخل ہونا۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جہاں انسان اپنے اندر ایک روحانی بیداری، سکون، اور اللہ سے قربت محسوس کرتا ہے۔
یہ کیفیت کئی طریقوں سے بیان کی جاتی ہے:
 ہدایت اور بصیرت: جب اللہ کا نور دل میں اترتا ہے تو انسان کو حق اور باطل کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ اسے زندگی کے مقاصد اور صحیح راستہ نظر آنے لگتا ہے۔ وہ گناہوں سے بچنے اور نیکی کے کاموں میں مشغول ہونے کی ترغیب پاتا ہے۔
 سکون اور اطمینان: یہ نور دل کو ہر قسم کی بے چینی، پریشانی، اور خوف سے پاک کر دیتا ہے۔ انسان کو ایک گہرا داخلی سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے، چاہے بیرونی حالات کیسے بھی ہوں۔
 اللہ کی معرفت اور محبت: نورِ الٰہی دل میں اللہ کی پہچان (معرفت) کو بڑھاتا ہے اور اس کی محبت کو پروان چڑھاتا ہے۔ انسان کا دل اللہ کی یاد اور شکر سے معمور ہو جاتا ہے۔
 روحانی پاکیزگی: یہ نور دل کو ہر قسم کی روحانی بیماریوں جیسے حسد، بغض، تکبر، اور حرص سے صاف کرتا ہے۔ دل پاکیزہ ہو کر اللہ کی تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے۔
  اللہ سے قربت: نورِ الٰہی کے ذریعے انسان اللہ سے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اللہ ہر وقت اس کے ساتھ ہے اور اس کی سن رہا ہے۔

اللہ کی تجلیات
اللہ کی تجلیات


یہ نور کیسے حاصل ہوتا ہے؟

یہ نور عام طور پر درج ذیل طریقوں سے حاصل ہوتا ہے:
 ذکر و اذکار: اللہ کا ذکر کثرت سے کرنا، تلاوتِ قرآن، اور دعاؤں کے ذریعے دل کو نورانیت ملتی ہے۔
 عبادت: نماز، روزہ، حج، اور دیگر عبادات کی پابندی روحانی پاکیزگی کا باعث بنتی ہے۔
  توبہ و استغفار: گناہوں سے توبہ کرنا اور اللہ سے مغفرت طلب کرنا دل کے زنگ کو دور کرتا ہے۔
 نیک اعمال: دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، خیرات، اور بھلائی کے کام بھی دل کو روشن کرتے ہیں۔
 اولیاء اللہ کی صحبت: نیک اور پرہیزگار لوگوں کی صحبت بھی دل کو منور کرتی ہے۔
"نورِ الٰہی کا دل میں اترنا" دراصل ایک رحمتِ الٰہی ہے جو اس انسان پر ہوتی ہے جو خلوصِ نیت سے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلسل روحانی سفر ہے جس میں انسان کا دل بتدریج اللہ کے نور سے روشن ہوتا چلا جاتا ہے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !