حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف ، اسلامی خدمات کے ساتھ آپ ؓ کا دور خلافت

Dabistan_e_Islam
0

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف ، اسلامی خدمات کے ساتھ آپ ؓ کا دور خلافت


حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد اور عشرہ مبشرہ (وہ دس صحابہ کرام جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی) میں شامل ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ان ابتدائی افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ 


حضرت عثمان غنی ؓ کا مختصر تعارف
حضرت عثمان غنیؓ کا مختصر تعارف



ابتدائی زندگی اور نسب

آپ کا نام عثمان، والد کا نام عفان اور والدہ کا نام ارویٰ بنت کریز تھا۔ آپ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے بنو امیہ سے تھا۔ آپ کا نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ کی نانی ام حکیم البیضاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کی پیدائش ہجرت نبوی سے 47 سال قبل (عام الفیل کے چھٹے سال) مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

قبول اسلام

آپ نے تقریباً 34 یا 35 سال کی عمر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ آپ السابقون الاولون (سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے) میں شامل ہیں۔

القاب اور فضائل

 ذوالنورین: 
آپ رضی اللہ عنہ کو یہ لقب اس لیے ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ان کی وفات کے بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا، یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ یہ اعزاز کسی اور کو حاصل نہیں۔

 ذوالہجرتین: 
آپ نے اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کی، ایک حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔

 جامع القرآن: 
آپ نے اپنے دور خلافت میں قرآن مجید کو ایک مصحف کی صورت میں جمع کرایا اور اسے مختلف علاقوں میں پھیلا کر امت کو ایک قرأت پر جمع کیا۔

 حافظ قرآن و کاتب وحی: 
آپ حافظ قرآن بھی تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی تھے۔

 شرم و حیا کے پیکر: 
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی بے مثال حیا اور بے پناہ سخاوت کی وجہ سے مشہور تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص سے کیسے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں

حضرت عثمان ؓ شرم و حیا کے پیکر
حضرت عثمان ؓ شرم و حیا کے پیکر


اسلامی خدمات اور دورِ خلافت

آپ کا دور خلافت 644ء (23 ہجری) سے 656ء (35 ہجری) تک تقریباً 12 سال پر محیط تھا۔

اہم کارنامے اور واقعات

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کئی اہم واقعات اور کارنامے رونما ہوئے، جن میں سے چند نمایاں یہ ہیں:

  قرآن مجید کی جمع و تدوین: 

یہ آپ کے دور کا سب سے اہم کارنامہ ہے، جس کے ذریعے قرآن مجید کو ایک معیاری قرأت (لہجے) پر جمع کیا گیا اور اس کی نقول تیار کر کے اسلامی مملکت کے مختلف علاقوں میں بھیجی گئیں۔ یہ کام امت مسلمہ کو قرآن پر متحد رکھنے کے لیے ایک عظیم خدمت تھی۔

 فتوحات کا سلسلہ:

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شروع ہونے والی فتوحات کا سلسلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی جاری رہا اور اسلامی مملکت کی حدود کو مزید وسیع کیا گیا۔
 ان فتوحات میں درج ذیل علاقے شامل ہیں:

    افریقہ:
 طرابلس، افریقہ (تیونس)، اور مراکش کے کچھ حصے فتح ہوئے۔
    بحیرہ روم: 
جزیرہ قبرص اور جزیرہ روڈس فتح ہوئے۔ مسلمانوں نے پہلی بحری فوج بھی آپ کے دور میں تشکیل دی۔
   مشرقی علاقے:
 ایران میں بغاوتوں کو کچلا گیا، خراسان، طبرستان، اور افغانستان کے کچھ علاقے شامل ہوئے۔ مسلم افواج کابل اور موجودہ پاکستان کی سرحدوں تک بھی پہنچیں۔
    آرمینیا اور آذربائیجان:
 ان علاقوں میں ہونے والی بغاوتوں کو فرو کر کے انہیں دوبارہ اسلامی خلافت میں شامل کیا گیا۔
   عوامی فلاح و بہبود کے کام: 
آپ نے رعایا کی آسانی کے لیے سڑکیں بنوائیں، مسافر خانے تعمیر کروائے، اور نہری نظام کو مضبوط کیا۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے بند (ڈیم) بھی تعمیر کروائے گئے۔
   مسجد نبوی کی توسیع: 
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے 29 ہجری میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شاندار توسیع کروائی۔
   بیر رومہ کی خریداری:
 آپ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں پانی کی قلت کے پیش نظر ایک یہودی سے بئر رومہ (رومہ کنواں) خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا۔
مالی امداد:
آپ نے کئی موقعوں پر مسلمانوں کی مالی مدد کی، غزوہ تبوک کے لیے کثیر مالی معاونت شامل ہے۔

آخری ایام اور شہادت

خلافت کے آخری چند سالوں میں بعض علاقوں، خاص طور پر مصر اور کوفہ میں، عبداللہ بن سبا جیسے عناصر کی جانب سے بغاوت اور فتنہ پروری شروع ہوئی۔ ان عناصر نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مختلف الزامات لگائے اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے ان الزامات کا تسلی بخش جواب دیا، تاہم باغیوں کا زور بڑھتا گیا اور انہوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا۔
ہر صحابیِ رسول ﷺ  جنتی جنتی
ہر صحابیِ رسولﷺ جنتی جنتی



اس محاصرے کے دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا اور فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو لڑائی سے منع کیا۔ بالآخر، 18 ذی الحجہ 35 ہجری کو، باغیوں نے آپ کے گھر میں گھس کر روزہ کی حالت میں آپ کو شہید کر دیا۔ آپ کی شہادت اسلامی تاریخ میں ایک انتہائی دکھ بھرا واقعہ ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے، جس کا نتیجہ بعد میں خانہ جنگی (پہلی فتنہ) کی صورت میں نکلا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی، آپ کی شرافت، نرم دلی سخاوت، حیا اور دین اسلام کے لیے کی گئی بے مثال خدمات مسلمانوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔اور ان کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !