خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت (ایک سنہری عہد)
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت (634-644 عیسوی) اسلامی تاریخ میں ایک نہایت اہم اور سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کو بلاشبہ اسلام کے سب سے زیادہ بااثر اور طاقتور خلفاء میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ کے دس سالہ دورِ خلافت میں اسلامی ریاست نے غیر معمولی وسعت اختیار کی اور کئی انتظامی و معاشرتی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ آپ کی خلافت نے نہ صرف اسلامی ریاست کی جغرافیائی توسیع میں غیر معمولی کردار ادا کیا بلکہ انتظامی، عدالتی اور سماجی شعبوں میں بھی گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑے۔
![]() |
حضرت عمر ؓ کا دور خلافت |
توسیعِ سلطنت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی فتوحات میں غیر معمولی تیزی آئی۔ ان کی قیادت میں مسلم افواج نے اس وقت کی دو بڑی طاقتوں، ساسانی فارسی سلطنت اور بازنطینی رومی سلطنت کے بڑے حصوں کو فتح کیا۔
عراق اور ایران کی فتح:
ساسانی سلطنت کو مکمل طور پر شکست دی گئی اور عراق، ایران، آذربائیجان، کرمان، سیستان، اور خراسان کو اسلامی خلافت میں شامل کیا گیا۔ یہ ایک تاریخی کارنامہ تھا جس نے خطے کے سیاسی نقشے کو بدل دیا۔
شام، فلسطین، اور مصر کی فتح:
بازنطینی سلطنت سے شام، اردن، فلسطین، اور مصر کے وسیع علاقے فتح کیے گئے۔ بیت المقدس (یروشلم) کی فتح ایک اہم واقعہ تھا، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کو مکمل مذہبی آزادی دی اور خود انتہائی سادگی سے شہر میں داخل ہوئے۔
انتظامی اور عدالتی اصلاحات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک وسیع اور منظم انتظامی ڈھانچہ قائم کیا جو آنے والی اسلامی ریاستوں کے لیے بنیاد بنا۔
صوبائی نظام:
خلافت کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر صوبے پر ایک اہل گورنر (والی یا امیر) مقرر کیا گیا جو فوجی اور انتظامی امور کا ذمہ دار ہوتا تھا۔
دیوان کا قیام:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے "دیوان" کا نظام متعارف کرایا، جو ایک طرح کا عوامی رجسٹر تھا جہاں فوجیوں، افسروں، اور شہریوں کے ریکارڈ رکھے جاتے تھے اور وظائف تقسیم کیے جاتے تھے۔ یہ مالیاتی اور انتظامی شفافیت کے لیے ایک اہم قدم تھا۔
عدالتی نظام:
انہوں نے ایک آزاد عدالتی نظام قائم کیا اور ہر صوبے میں قاضی (جج) مقرر کیے جو قرآن و سنت کے مطابق عدل و انصاف فراہم کرتے تھے۔ یہ نظام ایگزیکٹو سے عدلیہ کی آزادی کی پہلی مثالوں میں سے ایک تھا۔
![]() |
انتظامی اور عدالتی نظام |
پولیس اور جیل کا نظام:
عوامی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا اور باقاعدہ جیلیں قائم کی گئیں۔
نئے شہروں کی بنیاد:
انہوں نے فوجی چھاؤنیوں اور نئے شہروں کی بنیاد رکھی جیسے کہ کوفہ، بصرہ، اور فسطاط (مصر میں)، جو بعد میں اہم اسلامی مراکز بنے۔
زرعی اور مالیاتی اصلاحات:
انہوں نے کسانوں کے حقوق کی حفاظت کی اور ایسے قوانین بنائے کہ مفتوحہ علاقوں میں عربوں کو زمین خریدنے سے روکا گیا تاکہ مقامی کسانوں کی ملکیت برقرار رہے۔ نہری نظام کو بہتر بنایا اور زراعت کو فروغ دیا۔ انہوں نے بیت المال (سرکاری خزانہ) کا ایک منظم نظام بھی قائم کیا۔
سماجی اور فلاحی اقدامات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت فلاحی ریاست کے تصور کی ایک بہترین مثال تھی۔
معاشرتی فلاح و بہبود:
انہوں نے غریبوں، یتیموں، بیواؤں، اور معذوروں کے لیے وظائف مقرر کیے اور ایک نظام قائم کیا تاکہ کوئی بھی بھوکا نہ سوئے۔
تعلیم کا فروغ:
انہوں نے تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی اور اساتذہ کے لیے اچھی تنخواہیں مقرر کیں تاکہ علم کا فروغ ہو سکے۔
سادگی اور انصاف:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی سادگی، تقویٰ، اور عدل و انصاف کے لیے مشہور تھے، اور انہیں "الفاروق" (حق و باطل میں فرق کرنے والا) کا لقب ملا۔ وہ اپنے افسران اور گورنروں پر سخت نظر رکھتے تھے اور ان کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے تھے۔
![]() |
عمر فاروق ؓ کا مقام و مرتبہ |
دیگر اہم کارنامے
ہجری تقویم کا آغاز:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سال سے اسلامی تقویم (ہجری کیلنڈر) کا آغاز کیا۔
آبادی کی مردم شماری:
انہوں نے اسلامی ریاست میں آبادی کی مردم شماری کروائی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت تقریباً دس سال تک جاری رہی اور وہ 644 عیسوی میں ایک فارسی غلام ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کا دور اسلامی تاریخ میں ایک مثالی دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے اسلامی تہذیب اور ریاست کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔
MASHA ALLAH
ReplyDeleteSUBHAN ALLAH
ReplyDeleteGreat Era of Hazrat Umar RA
ReplyDeleteIslamic History1
ReplyDelete