معرفتِ الٰہی کا حصول اور اسکے ثمرات
معرفت الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، افعال اور احکام کی گہری، قلبی اور روحانی پہچان ہے۔ یہ محض عقلی یا علمی جانکاری سے بڑھ کر ایک ایسا عرفان ہے جو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور انسان کی پوری ہستی کو بدل دیتا ہے۔ معرفت، "علم" سے بلند تر درجہ رکھتی ہے، کیونکہ علم تو معلومات حاصل کرنا ہے، جبکہ معرفت کسی شے کی حقیقت کو اس طرح جاننا ہے کہ وہ اس کی ذات کا حصہ بن جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی بے مثال ہے کہ اسے صرف عقل سے مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا، اسی لیے "علمتُ اللہ" (میں نے اللہ کو جان لیا) کہنے کے بجائے "عرفتُ اللہ" (میں نے اللہ کو پہچان لیا) کا لفظ زیادہ موزوں سمجھا جاتا ہے۔
![]() |
معرفت الٰہی کا حصول |
معرفتِ الٰہی کی اہمیت:
معرفتِ الٰہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی روحانی زندگی کی بنیاد ہے۔ جب انسان اپنے رب کو پہچان لیتا ہے، تو اسے اپنی حیثیت، اپنی ذمہ داریوں اور اپنی منزل کا ادراک ہو جاتا ہے۔ یہ معرفت ہی اسے دنیا کی فانی لذتوں سے بے نیاز کر کے اخروی کامیابی کی طرف راغب کرتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جس نے اپنے رب کو پہچان لیا، اس نے درحقیقت اپنی ذات کو پہچان لیا۔" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خود شناسی اور خدا شناسی لازم و ملزوم ہیں۔
معرفتِ الٰہی کے حصول کے ذرائع:
قرآن و سنت پر غور و فکر:
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس کی ذات، صفات اور افعال کا تعارف کراتا ہے۔ قرآنی آیات میں کائنات کے اسرار و رموز، انسان کی تخلیق کا مقصد اور اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر (تدبر فی المخلوقات) معرفت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور احادیثِ مبارکہ معرفتِ الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں، کیونکہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا کامل نمونہ ہیں۔آپ ﷺ کی محبت اور سیرت طیبہ کے بارے میں جاننے کے لیے کلک کریں۔
عبادت اور بندگی:
نماز، روزہ، ذکر، دعا اور دیگر عبادات اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنے اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ جب بندہ خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرتا ہے تو اس کے دل پر انوارِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور اسے اللہ کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ ذکرِ الٰہی خاص طور پر دلوں کو پاکیزہ کرتا ہے اور ان میں معرفت کے چراغ روشن کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس:
نفس کی پاکیزگی اور اخلاقی برائیوں سے دوری معرفتِ الٰہی کی بنیادی شرط ہے۔ جب دل حسد، بغض، کینہ، تکبر اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کو قبول کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ تزکیہ نفس مجاہدات، ریاضتوں اور نیک اعمال کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
![]() |
نیک اعمال سے اجاگر حقیقت |
کائنات پر غور:
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات، اس کی وسعت، اس کی خوبصورتی، اس کا نظام، ہر چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت اور عظمت کی نشانی ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے میں غور و فکر کرنے سے انسان اللہ کی کاریگری اور بے مثال صفتوں کا ادراک حاصل کرتا ہے، جو اس کی معرفت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔
نیک صحبت:
اہلِ اللہ، صوفیاء اور اولیاء کرام کی صحبت معرفتِ الٰہی کے حصول میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کے دل اللہ کی معرفت سے روشن ہوتے ہیں، اور ان کی صحبت سے دوسروں کو بھی یہ نور حاصل ہوتا ہے۔ مرشدِ کامل کی رہنمائی اس راستے پر چلنے والوں کے لیے بہت ضروری ہے۔
معرفتِ الٰہی کے ثمرات:
قلبی سکون اور اطمینان: معرفت الٰہی انسان کو دنیاوی پریشانیوں سے آزاد کر کے قلبی سکون عطا کرتی ہے۔
اللہ کی محبت اور خشیت: معرفت سے انسان کے دل میں اللہ کی بے پناہ محبت اور اس کا ایک رعب و دبدبہ پیدا ہوتا ہے جو اسے گناہوں سے بچاتا ہے۔
قناعت اور توکل: عارف باللہ دنیاوی چیزوں کی طرف زیادہ رغبت نہیں رکھتا بلکہ اللہ پر مکمل بھروسہ کرتا ہے اور اس کی رضا پر راضی رہتا ہے۔
عاجزی اور انکساری: معرفت انسان کے اندر عاجزی پیدا کرتی ہے، کیونکہ وہ اپنی حیثیت کو اللہ کی عظمت کے سامنے کچھ نہیں سمجھتا۔
اخلاق کی درستگی: معرفتِ الٰہی انسان کے اخلاق و کردار کو سنوارتی ہے اور اسے صبر، شکر، امانت، صداقت اور عدل جیسی صفات سے آراستہ کرتی ہے۔
خدمتِ خلق: عارف باللہ اللہ کی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور ان کے لیے بھلائی کے کام کرتا ہے، کیونکہ وہ اللہ کی مخلوق میں اللہ کی تجلی دیکھتا ہے۔
![]() |
معرفت الٰہی کے ثمرات |
خلاصہ:
معرفتِ الٰہی ایک روحانی سفر ہے جو زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ یہ کوئی جامد حالت نہیں بلکہ بڑھتا اور گہرا ہوتا رہتا ہے۔ یہ انسان کو دنیا میں حقیقی کامیابی اور آخرت میں ابدی فلاح کی طرف لے جاتا ہے۔ جس نے اللہ کو پہچان لیا، اس نے درحقیقت وہ سب کچھ حاصل کر لیا جو انسان کے لیے ممکن ہے۔ یہ معرفت ہی ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں "انسان" بناتی ہے۔