حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا دورِ حکومت

Dabistan_e_Islam
0

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا دورِ حکومت

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا دورِ حکومت (خلافت) اسلامی تاریخ میں ایک اہم اور پرآشوب دور تھا۔ آپ چوتھے خلیفہ راشد تھے اور آپ نے 656 عیسوی سے 661 عیسوی تک خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، جو تقریباً 4 سال، 8 ماہ اور 9 دن پر محیط تھیں۔


مولا علیؓ کا دورِ خلافت
مولا علیؓ کا دورِ خلافت


خلافت کا آغاز

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد، مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں نے اپنا خلیفہ منتخب کیا۔ ابتدا میں آپ نے اس منصب کو قبول کرنے میں تامل کیا، لیکن مہاجرین و انصار کے شدید اصرار پر آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ آپ کی بیعت 21 ذی الحجہ 35 ہجری (جون 656 عیسوی) کو مسجد نبوی میں ہوئی۔

دارالحکومت کی منتقلی

حضرت علی نے حالات کے پیش نظر اسلامی خلافت کا دارالحکومت مدینہ منورہ سے کوفہ (عراق) منتقل کر دیا، جہاں آپ کو وسیع حمایت حاصل تھی۔

اہم واقعات اور چیلنجز

حضرت علی کے دورِ خلافت کا بڑا حصہ داخلی خلفشار اور فتنوں سے بھرا رہا، جسے تاریخ میں "پہلا فتنہ" کہا جاتا ہے۔ ان میں چند اہم واقعات درج ذیل ہیں:

  جنگ جمل (Battle of Camel):

 یہ جنگ حضرت علی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی افواج کے درمیان 656 عیسوی میں بصرہ کے قریب لڑی گئی۔ اس جنگ کا سبب حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ تھا۔


حضرت علی ؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی جنگیں
حضرت علی کے دور خلافت میں ہوئی جنگیں


  جنگ صفین (Battle of Siffin):

 657 عیسوی میں حضرت علی اور شام کے گورنر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی افواج کے درمیان دریائے فرات کے کنارے صفین کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس جنگ کے بعد تحکیم (ثالثی) کا عمل شروع ہوا، جس نے بعد میں خوارج کے ظہور کا راستہ ہموار کیا۔

  خوارج کا ظہور اور جنگ نہروان: 

تحکیم کو نامنظور کرنے والے ایک گروہ نے "خوارج" کی شکل اختیار کر لی، جو حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ دونوں کی مخالفت کرنے لگے۔ حضرت علی نے 658 عیسوی میں جنگ نہروان میں خوارج کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی۔

 خلافت کا انحطاط:

 ان مسلسل اندرونی تنازعات اور جنگوں کی وجہ سے اسلامی ریاست کا اتحاد کمزور پڑا اور حضرت علی کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کا اختتام ہو گیا۔

حضرت علی کی حکمرانی کی خصوصیات

ان چیلنجز کے باوجود، حضرت علی نے اپنے دورِ حکومت میں عدل و انصاف، مساوات، اور قرآن و سنت کی بنیاد پر حکمرانی کو اولیت دی۔ آپ کی زندگی سادگی اور زہد کا بہترین نمونہ تھی۔ آپ نے بیت المال کے نظام کو مضبوط بنایا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ سرکاری آمدنی مستحق افراد تک جلد پہنچے۔ آپ خود بازار میں بیٹھ کر کھجوریں فروخت کرتے تھے، پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے، اور غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔

شہادت

تاریخ اور مقام:

 حضرت علیؓ 19 رمضان المبارک 40 ہجری (26 یا 28 جنوری 661 عیسوی) کو عراق کے شہر کوفہ کی مسجد میں نماز فجر کے دوران شہید ہوئے۔

قاتل:

 آپ کو عبدالرحمٰن ابن ملجم نامی ایک خارجی نے زہر آلود تلوار سے حملہ کر کے زخمی کیا تھا۔ ابن ملجم کا تعلق خوارج کے ایک گروہ سے تھا، جو جنگ نہروان میں اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔

حملے کا طریقہ:

 جب حضرت علی نماز فجر کی امامت کے لیے مسجد میں داخل ہوئے یا جب وہ سجدے میں تھے، تو ابن ملجم نے ان کے سر پر زہر آلود تلوار سے وار کیا۔ یہ وار اتنا شدید تھا کہ ان کا سر مبارک زخمی ہو گیا۔

ہار چکے تھے جب ہر ایک محاز پہ 

قتل اور کہاں کرتے سواۓ نماز میں

شہادت: 

اس حملے کے بعد حضرت علیؓ دو دن تک شدید زخمی رہے اور 21 رمضان المبارک 40 ہجری (28 جنوری 661 عیسوی) کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 62 یا 63 برس تھی۔

تدفین:

 آپ کو کوفہ کے قریب موجودہ نجف اشرف میں خفیہ طور پر دفن کیا گیا تاکہ دشمنوں سے قبر کی بے حرمتی سے بچا جا سکے۔ آج آپ کا روضہ مبارک نجف اشرف میں مرجع خلائق ہے۔

روضہ مبارک
روضہ مبارک 


شہادت کے اثرات

حضرت علی کی شہادت اسلامی امت کے لیے ایک عظیم سانحہ تھی۔ آپ کی شہادت نے اسلامی خلافت میں ایک اہم موڑ پیدا کیا اور بعد کے ادوار میں کئی سیاسی اور مذہبی تقسیموں کی بنیاد بنی۔ آپ کی زندگی، آپ کی شجاعت، علم اور عدل کو آج بھی تمام مسلمان عقیدت اور احترام سے یاد کرتے ہیں

خلاصہ

  حضرت علی کا دورِ حکومت اسلامی تاریخ کا ایک ایسا دور ہے جس میں ایک طرف بے مثال عدل و انصاف، علم اور سادگی کی مثالیں ملتی ہیں، تو دوسری طرف داخلی اختلافات اور فتنوں نے اسلامی معاشرے کو متاثر کیا۔ اس دور کے واقعات سے آج بھی امت مسلمہ کے لیے بہت سے سبق موجود ہیں۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !