نام علیؓ کا انتخاب اور آغوش نبوت ﷺ میں آپ ؓ کی تعلیم و تربیت
نام رکھنا:
حضور اکرم ﷺ نے اپنی چچی فاطمہ بنت اسد اور اپنے چچا ابی طالب سے فرمایا کے اس بچے کا نام کیا رکھو گے انہوں نے عرض کیا جو نام آپ کو پسند ہو گا وہی رکھا جاۓ گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اس بچے کا نام "علی" رکھا۔
حضرت فاطمہ بنت اسد نے عرض کیا حضور واللہ مجھے خانہ کعبہ میں غیبی آواز آئی اس کا نام " علی" رکھنا لیکن میں نے اس بات کا اظہار نہ کیا اور آپ نے وہی نام رکھا ہے جس پہ غیبی نداء آئی تھی
"علی" کے معنی بلند اور عالی کے ہیں۔ یہ نام اس بچے کی آنے والی بلند شان اور مرتبے کا غماز تھا۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ پہلے حضرت فاطمہ بنت اسد نے اپنے والد کے نام پر "اسد" یا "حیدر" نام رکھنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے "علی" نام کو پسند فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام علی خود پیغمبر اسلام (ص) نے اللہ کے نام پر رکھا تھا۔
اس کے علاوہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت سے القاب اور کنیتیں بھی ہیں جو ان کی عظمت اور خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ کچھ مشہور القاب یہ ہیں:
اسد اللہ: اللہ کا شیر
حیدر: شیر
المرتضیٰ: پسندیدہ
امیر المؤمنین: مسلمانوں کے امیر
ابو تراب: مٹی کا باپ (یہ لقب پیغمبر اسلام (ص) نے انہیں دیا تھا)
زوج البتول: بتول کے شوہر (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر)
ساقی کوثر: کوثر کا ساقی
فاروق: حق و باطل میں فرق کرنے والا
یعسوب الدین: دین کا سردار
یہ تمام نام اور القاب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظیم شخصیت اور دین اسلام کے لیے ان کی خدمات کو بیان کرتے ہیں۔
یہ تمام واقعات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ابتدائی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص توجہ اور محبت کو ظاہر کرتے ہیں اور اس بات کی نشانی ہیں کہ آپ کو بچپن ہی سے ایک عظیم مقصد کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔
آغوش نبوت ﷺ میں سیدنا علیؓ کی تعلیم و تربیت
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تربیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ ہوئی۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی تربیت کا مکمل واقعہ اسلامی تاریخ کے انتہائی خوبصورت اور بابرکت ابواب میں سے ایک ہے، جس نے آپ کی شخصیت کو ایسی بلندیاں عطا کیں جن کی نظیر کم ملتی ہے۔ آپ کی پیدائش اور پرورش ایسے منفرد حالات میں ہوئی کہ بچپن سے ہی آپ کو معلم انسانیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی براہ راست نگرانی اور محبت کا سایہ نصیب ہوا۔
![]() |
آپ ؓ کی آغوش نبوت ﷺ میں تعلیم و تربیت |
ایک روایت کے مطابق، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً پانچ یا چھ سال تھی، مکہ میں ایک شدید قحط پڑا۔ اس قحط کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور حضرت علی کے والد، حضرت ابو طالب کی مالی حالت بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ حضرت ابو طالب کے کئی بچے تھے اور ان کے لیے تمام بچوں کی کفالت کرنا مشکل ہو گیا۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دوسرے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا: "ابو طالب پر مالی بوجھ بڑھ گیا ہے اور اہل و عیال زیادہ ہیں۔ چلو ہم ان کا بوجھ ہلکا کریں، میں ان کا ایک بیٹا اپنے پاس لے لیتا ہوں اور تم بھی ایک بیٹا اپنے پاس لے لو۔" حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔
چنانچہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر (حضرت علی کے بھائی) کو اپنے ساتھ کر لیا۔ اس طرح، کم عمری ہی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے والدین کے گھر سے نکل کر براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں آ گئے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی محبت اور تربیت کے سائے تلے آپ کی پرورش ہوئی۔
نبی اکرم ﷺ کی تربیت کے اثرات
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں رہنا آپ کی شخصیت کے لیے ایک غیر معمولی سعادت ثابت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کی روحانی، اخلاقی اور فکری تربیت پر خصوصی توجہ دی۔
اس تربیت کے نمایاں پہلو درج ذیل ہیں:
اخلاقی اور روحانی تربیت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روزمرہ کی زندگی، عادات، اخلاق اور کردار کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سچائی، امانت داری، عدل، سخاوت، عاجزی اور اللہ پر توکل جیسے بنیادی اسلامی اخلاق سکھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شب و روز کی عبادات، ذکر و اذکار اور اللہ سے تعلق نے حضرت علی کے دل میں اسلام کی گہری جڑیں پیدا کیں۔
تعلیم و حکمت:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو علم و حکمت کی تعلیم دی اور انہیں قرآن و سنت کی گہری سمجھ عطا کی۔ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ بعد میں آپ علم و فہم کے حوالے سے "مدینۃ العلم کا دروازہ" کہلائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات، ہر عمل، اور ہر اشارہ حضرت علی کے لیے سبق آموز ہوتا تھا۔
کوئی نہ تھا جو ایسا رتبہ پاتا
رسولِ خدا ﷺ سے براہِ راست تعلیم پاتا
علی ؓ کی قسمت پہ رحمتوں کا سایہ تھا
کیونکہ نبی ﷺ کی ہر ادا تھی ان کو بھاتا
ایمان کی پختگی:
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کم عمری کے باوجود سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے بچوں میں شامل تھے۔ یہ آپ کی اس تربیت کا ثمرہ تھا جو آپ کو بچپن سے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ملی تھی۔
خدمت اور فداکاری:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وقف کر دی۔ ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر سونا اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا آپ کی اسی تربیت اور فداکاری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شجاعت اور بہادری:
اگرچہ شجاعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاندانی خوبی تھی، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عملی زندگی اور جہاد کے ذریعے انہیں جرأت، بہادری اور حق پر ڈٹ جانے کا سبق دیا۔ غزوات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہ کر آپ نے میدان جنگ کے آداب اور جنگی حکمت عملی سیکھی۔
![]() |
آپؓ کی شجاعت آپکی خاندانی خوبی تھی |
مختصراً، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تربیت کا مکمل واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بچے کو اپنی آغوش میں لے کر، اپنی تعلیمات، اپنے اخلاق اور اپنی محبت کے ذریعے ایک ایسی شخصیت میں ڈھالا جو بعد میں نہ صرف اسلام کے سب سے بڑے مجاہدین میں سے ایک بنے بلکہ علم، حکمت، عدل اور شجاعت کا پیکر بن کر اسلامی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔