حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت

Dabistan_e_Islam
0

  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت

اسلام کے پہلے خلیفہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھی، گہرے دوست اور سسر تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 632 عیسوی سے 634 عیسوی تک تقریباً سوا دو سال تک خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔


حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت
  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت


ان کے دور خلافت کے اہم نکات درج ذیل ہیں:


 خلافت کا آغاز: 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں میں جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوا، جسے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کرکے حل کیا گیا۔ یہ خلافت راشدہ کا آغاز تھا، جس میں چار خلفائے راشدین شامل ہیں۔


دور خلافت میں شجاعت کا عروج

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اسلامی ریاست کو جن بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا، ان میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور عزم و ہمت کھل کر سامنے آئی


 ارتداد کی سرکوبی (جنگیں):

 رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کے دور خلافت کا سب سے بڑا چیلنج بہت سے عرب قبائل کا زکوٰۃ دینے سے انکار اور جھوٹے نبیوں کی پیروی شروع کرنا تھا۔ یہ صورتحال اسلامی ریاست کی بنیادوں کو ہلا دینے والی تھی، اور بہت سے صحابہ کرامؓ بھی ان سے نرمی برتنے کے حق میں تھے۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال حوصلے اور ایمان کی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس صورتحال کو سختی سے نمٹا اور اعلان کیا کہ وہ اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک زکوٰۃ کو نماز کی طرح فرض نہ مان لیا جائے اور جھوٹے نبیوں کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ یہ ان کی غیر متزلزل شجاعت تھی جس نے امت کو بکھرنے سے بچایا اور اسلامی وحدت کو برقرار رکھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کئی کامیاب فوجی مہمات کی قیادت کی۔


قرآن کی جمع و تدوین

اگرچہ یہ براہ راست میدان جنگ کی شجاعت نہیں، لیکن قرآن کریم کے حافظوں کی جنگوں میں شہادت کے بعد، قرآن کو یکجا کرنے کا فیصلہ ایک بڑے تدبر اور جرات کا مظہر تھا۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مشورے پر، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے منتشر حصوں کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیا یہ ایک انتہائی اہم کارنامہ تھا اس کام کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ذمہ داری سونپی گئی اور یہ فیصلہ طویل مدت میں اسلام کی حفاظت کا ضامن بنا


قرآن کی جمع و تدوین
قرآن کی جمع و تدوین


 اسلامی فتوحات کا آغاز: 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مختصر دور میں ہی بازنطینی اور ساسانی سلطنتوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کیں، جن کی بنیاد پر بعد میں عظیم فتوحات حاصل ہوئیں۔ یہ بھی ان کی دور اندیشی اور ہمت کا ثبوت تھا کہ انہوں نے ایک ایسی ریاست کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا جو ابھی داخلی بحرانوں سے نمٹ رہی تھی۔


 لشکر اسامہ کی روانگی: 

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت شام کی سرحدوں پر رومیوں کے خلاف ایک لشکر (لشکر اسامہ بن زید) روانہ کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد، بہت سے صحابہ کرامؓ نے رائے دی کہ اس وقت لشکر کو روک لیا جائے کیونکہ مدینہ کے اندرونی حالات کشیدہ تھے۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے آخری حکم کی تعمیل میں بے مثال جرات کا مظاہرہ کیا اور لشکر اسامہ کو روانہ کرنے کا فیصلہ کیا، یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے امت کو یہ پیغام دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں اور ارادوں پر سختی سے قائم رہیں گے


لشکر اسامہ کی روانگی
لشکر اسامہ کی روانگی


 سادگی اور عدل:

 ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران انتہائی سادگی اور عدل و انصاف کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایک کامیاب تاجر تھے لیکن خلافت کے بعد ایک سادہ زندگی گزاری اور مسلمانوں کے معاملات میں غیر معمولی ایمانداری اور انصاف سے کام لیا۔


 وفات اور تدفین:

 آپ کی وفات 23 اگست 634 عیسوی کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت ان کے ایمان، عزم، اور دین اسلام کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے جذبے میں مضمر تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سنی مسلمان "الصدیق" (سچائی کو تسلیم کرنے والے) کے لقب سے جانتے اور یاد کرتے ہیں، جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عطا کیا تھا۔

تدفین مدینہ منورہ میں
تدفین مدینہ منورہ میں


انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں بھی امت مسلمہ کی قیادت
 کی اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ان کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور بنیادی باب ہے۔

 ۔
 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !