خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثال محبت
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا رشتہ تاریخ انسانیت کا ایک بے مثال اور گہرا رشتہ ہے۔ یہ صرف دو دوستوں کا تعلق نہیں تھا، بلکہ ایک عاشق اور اس کے محبوب کا، ایک جانثار صحابی اور اس کے آقا کا تعلق تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، جن کا اصل نام عبداللہ بن ابی قحافہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی اور وفادار ساتھی تھے۔ اسلام قبول کرنے والے مردوں میں سب سے پہلے آپ ہی تھے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی گہری محبت، عقیدت اور وفاداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
![]() |
خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے مثال محبت |
ان کی محبت کے چند پہلو درج ذیل ہیں:
سب سے پہلے اسلام قبول کرنا
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے آزاد مرد تھے جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر فوراً ایمان قبول کیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، جو ان کی گہری محبت اور کامل یقین کی علامت ہے
ہر حال میں تصدیق
آپ کا لقب "صدیق" اسی لیے پڑا کیونکہ آپ نے ہمیشہ، ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق کی، چاہے وہ کتنی ہی غیر معمولی کیوں نہ ہو۔ معراج کا واقعہ ہو یا کوئی اور غیبی خبر، آپ نے کبھی کسی ہچکچاہٹ کے بغیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ایمان رکھا
مالی قربانیاں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال و دولت اسلام کی راہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر قربان کر دیا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے صدقہ طلب کیا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا تمام مال لے آئے اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ گھر میں کیا چھوڑا ہے، تو آپ نے جواب دیا: "اللہ اور اس کے رسول کا نام۔"
![]() |
شان اور محبت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی |
ہجرت کا سفر اور وفاداری
غارِ ثور کا واقعہ اسلامی تاریخ میں ہجرتِ نبوی سے جڑا ایک انتہائی اہم اور معجزانہ واقعہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کفارِ مکہ، نبی کریم ﷺ کی جان کے درپے تھے اور آپ ﷺ کو مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم ملا۔
واقعہ کی تفصیلات
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ خفیہ طور پر مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کا آغاز کیا۔ کفارِ مکہ آپ ﷺ کی تلاش میں سرگرم تھے اور انعام کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔ اس مشکل وقت میں، آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مکہ کے جنوب میں واقع جبلِ ثور کے غار میں تین دن اور تین راتیں پناہ لی۔
کفار کی تلاش: کفار آپ ﷺ کی تلاش کرتے ہوئے غارِ ثور کے دہانے تک پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس پر شدید تشویش لاحق ہوئی کہ اگر دشمن نے تھوڑا سا بھی اندر جھانکا تو وہ انہیں دیکھ لیں گے۔
اللہ کی مدد: اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی غیبی مدد نازل فرمائی۔ غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تن دیا اور کبوتر نے گھونسلہ بنا کر انڈے دے دیے۔ یہ دیکھ کر کفار نے اندازہ لگایا کہ غار کے اندر کوئی نہیں ہے اور وہ واپس لوٹ گئے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جان نثاری: غار میں ایک سوراخ تھا جہاں سے کسی موذی جانور (سانپ) کے نکلنے کا خدشہ تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا پاؤں اس سوراخ پر رکھ دیا تاکہ نبی کریم ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ سانپ نے آپ کو ڈسا بھی، لیکن آپ نے اف تک نہ کی۔ اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا: "لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا" (غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ قرآن پاک کی سورۃ التوبہ کی آیت 40 میں بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: "ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا" (جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔
عامر بن فہیرہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ روزانہ رات کو بکریاں چرا کر غار کے پاس لاتے تھے تاکہ آپ حضرات دودھ پی سکیں۔
غار ثور کی اہمیت
غارِ ثور کو اسلامی تاریخ میں ایک یادگار اور مقدس مقام حاصل ہے۔ یہ ہجرتِ نبوی کا نقطہ آغاز تھا اور یہاں نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قربانی، توکل اور اللہ پر کامل یقین کی لازوال مثال ملتی ہے۔ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب بندوں کی حفاظت اور نصرت کا ایک واضح مظہر ہے۔
![]() |
عشق مصطفٰی میں ملا حضرت ابو بکر صدیقؓ کو مقام |
جسمانی تحفظ
جنگوں میں اور مشکل حالات میں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے اور ان کے دفاع کے لیے سب سے آگے ہوتے۔ وہ ڈھال بن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ کرتے تھے۔
وفاتِ نبوی کے بعد کا کردار
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب صحابہ کرام پر شدید غم اور اضطراب کی کیفیت طاری تھی، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمت اور دانشمندی سے امت کو سنبھالا۔
آپ نے وہ مشہور خطبہ دیا جس میں فرمایا: "جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں، اور جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔"
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت اور رفاقت کی ایک لازوال دابستان ہے۔ یہ محبت صرف زبانی دعویٰ نہیں تھی بلکہ ہر عمل، ہر قول اور ہر قربانی میں جھلکتی تھی۔