زکٰوۃ میں موجود پوشیدہ پہلو

Dabistan_e_Islam
0

  زکٰوۃ میں موجود پوشیدہ پہلو

زکوٰۃ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ یہ ایک لازمی مالی عبادت ہے جو صاحب حیثیت مسلمان اپنے مال کا ایک مخصوص حصہ غرباء اور مستحقین کو ادا کرتے ہیں۔ اس کا لغوی معنی "پاکیزہ کرنا" یا "پروان چڑھانا" ہے۔

 

زکٰوۃ میں موجود پوشیدہ پہلو
زکٰوۃ میں موجود پوشیدہ پہلو


زکوٰۃ کے بنیادی مقاصد:

 مال کی پاکیزگی: زکوٰۃ مال کو پاک کرتی ہے اور اس میں برکت پیدا کرتی ہے۔

 معاشرتی فلاح و بہبود: یہ دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہے اور معاشرے میں غریب اور نادار افراد کی مدد کرتی ہے۔

 غربت کا خاتمہ: زکوٰۃ کے ذریعے مستحق افراد کو اپنی ضروریات پوری کرنے اور اپنے حالات بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔

زکوٰۃ صرف ایک مالی عبادت نہیں، بلکہ اس میں کئی ایسی "خفیہ باتیں" یا پوشیدہ حکمتیں اور فوائد ہیں جو اس کی اہمیت کو مزید بڑھاتی ہیں۔ یہ فوائد صرف انفرادی نہیں بلکہ معاشرتی اور روحانی بھی ہیں۔

یہاں چند اہم "خفیہ باتیں" یا پوشیدہ پہلوؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے

1. تزکیہ نفس اور خود غرضی کا خاتمہ:

 لفظی معنی: زکوٰۃ کا لفظی معنی "پاک کرنا" اور "بڑھانا" ہے۔ یہ مال کو پاک کرتی ہے اور اس میں برکت کا باعث بنتی ہے۔

 نفسانی پاکیزگی: زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان حرص، طمع، خود غرضی اور کنجوسی جیسی بری صفات سے نجات پاتا ہے۔ یہ انسان کو اپنی ذات سے بڑھ کر دوسروں کے لیے سوچنے کی ترغیب دیتی ہے۔

 مال کی محبت میں کمی: انسان جب اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کے دل سے مال کی محبت کم ہوتی ہے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی جانب مائل ہوتا ہے۔  

2. معاشرتی ہم آہنگی اور غربت کا خاتمہ:

 معاشرتی انصاف: زکوٰۃ مالداروں سے لے کر غریبوں پر خرچ کی جاتی ہے، جس سے معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور طبقاتی فرق کم ہوتا ہے۔

 غربت کا خاتمہ: اگر زکوٰۃ کا نظام صحیح طریقے سے قائم کیا جائے تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے اور کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں رہے گا۔

 اخوت اور بھائی چارہ: زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے میں ہمدردی، اخوت اور بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ مالدار اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں۔

3. اللہ کی رحمت اور برکت کا حصول:

 مال میں اضافہ: ظاہری طور پر زکوٰۃ دینے سے مال کم ہوتا نظر آتا ہے، لیکن درحقیقت اس سے مال میں برکت آتی ہے اور وہ بڑھتا ہے۔

 گناہوں کی بخشش: صدقہ (جس میں زکوٰۃ بھی شامل ہے) گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔

 اللہ کی خوشنودی: زکوٰۃ اللہ کے حکم کی اطاعت ہے اور اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے، جو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔

 بری موت اور آسمانی بلاؤں سے حفاظت کا ذریعہ:

زکوٰۃ کی ادائیگی بری موت سے بچاتی ہے اور آسمان سے نازل ہونے والی تمام آفات و بلیّات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر انہیں زمین پر پہنچنے سے روکتی ہے۔ یہ مال کی پاکیزگی اور حفاظت کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔

زکٰوۃ کی ادائیگی حصولِ برکت، تکمیلِ ایمان
زکٰوۃ کی ادائیگی حصولِ برکت، تکمیلِ ایمان


4. ایمان کی تکمیل اور اللہ سے تعلق:

  ایمان کی نشانی: زکوٰۃ دینا ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول پر مکمل ایمان رکھتا ہے۔

 شکر نعمت: مال کا شکر ادا کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق اس کی راہ میں خرچ کیا جائے۔

 نصرت دین: زکوٰۃ کا ایک اہم مقصد دین کی نصرت اور حفاظت بھی ہے، جو اللہ کے دین کے لیے جدوجہد اور جہاد کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔

5. دکھاوے سے بچاؤ (مخفی صدقہ کی فضیلت):

 خلوص کا معیار: اگرچہ واجب زکوٰۃ کا اعلان بہتر ہے تاکہ دوسرے بھی اس کی ادائیگی کی ترغیب حاصل کریں لیکن نفلی صدقات میں مخفی طریقے سے دینا افضل ہے کیونکہ یہ اخلاص کے قریب تر اور ریاکاری سے دور رکھتا ہے

ایک مشہور حدیث میں ایسے شخص کا ذکر ہے جسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سائے تلے جگہ عطا فرمائیں گے، جس دن کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ان لوگوں میں ایک وہ شخص بھی شامل ہے جو اس طرح صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔

زکوٰۃ کس پر فرض ہے؟

زکوٰۃ ہر اس بالغ اور عاقل مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس نصاب (یعنی مال کی کم از کم مقررہ حد) کے برابر یا اس سے زیادہ مال ہو۔ یہ مال اس کے پاس ایک قمری سال تک موجود رہنا چاہیے۔

نصاب کیا ہے؟

نصاب کی مقدار سونے اور چاندی کی موجودہ قیمتوں سے منسلک ہوتی ہے۔

 سونے کا نصاب: 3 اونس یا 87.48 گرام سونا۔

 * چاندی کا نصاب: 21 اونس یا 612.36 گرام چاندی۔

عام طور پر، زکوٰۃ کی شرح 2.5 فیصد (چالیسواں حصہ) ہوتی ہے جو نقد رقم، سونا، چاندی، کاروباری سامان اور سرمایہ کاری پر ادا کی جاتی ہے۔

زکوٰۃ کے مستحق کون ہیں؟

قرآن کریم میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف (مستحقین) کا ذکر کیا گیا ہے:

 فقراء: وہ لوگ جو انتہائی غریب ہوں اور اپنی بنیادی ضروریات پوری نہ کر سکیں۔

 مساکین: وہ لوگ جو محتاج ہوں اور بظاہر مالدار لگیں لیکن حقیقت میں ضرورت مند ہوں۔

 عاملینِ زکوٰۃ: وہ لوگ جو زکوٰۃ جمع کرنے اور تقسیم کرنے پر مامور ہوں۔

 مؤلفتہ القلوب: وہ لوگ جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو۔

 غلاموں کی آزادی: غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے۔ (آج کل اسq سے مراد قرضوں سے نجات یا انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کی آزادی بھی لی جا سکتی ہے)۔

 مقروضین: وہ لوگ جو قرضوں میں ڈوبے ہوں اور ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔

 فی سبیل اللہ: اللہ کی راہ میں، یعنی دین اسلام کی خدمت اور فروغ کے لیے۔

  ابنِ سبیل: وہ مسافر جو سفر میں محتاج ہو جائے اور گھر واپسی کے لیے وسائل نہ رکھتا ہو۔

پاکستان میں زکوٰۃ کا نظام:

پاکستان میں زکوٰۃ و عشر کا ایک سرکاری نظام موجود ہے، جہاں ہر سال یکم رمضان کو بینک اکاؤنٹس سے خودکار طریقے سے 2.5 فیصد زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے، بشرطیکہ نصاب کی حد پوری ہوتی ہو۔ اس کے علاوہ لوگ خود بھی اپنی زکوٰۃ مستحقین کو یا فلاحی تنظیموں کے ذریعے ادا کرتے ہیں۔

زکٰوۃ کا نصاب اور نظام
زکٰوۃ کا نصاب اور نظام


خلاصہ:

زکوٰۃ صرف ایک فرض عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل معاشرتی اور روحانی نظام ہے جس کے ذریعے نہ صرف مال پاک ہوتا ہے بلکہ انسان کا نفس بھی پاکیزگی حاصل کرتا ہے، معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوتا ہے، اور اللہ کی رحمت و برکت کا نزول ہوتا ہے۔ اس میں چھپی ہوئی اصل بات یہ ہے کہ یہ انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے اور اسے ایک بہترین معاشرہ قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔


Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !